29 مئی 2014
آج ویسٹ پوائنٹ میں امریکی فوجی اکیڈمی کی گریجویٹ ہونے والی کلاس سے صدر اوباما نے اپنے افتتاحی خطاب میں، عالمی سطح پر امریکی قیادت کے بارے میں اپنے تصور کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ذیل میں وہ 10 نکات ہیں جو میری توجہ کا مرکز بنے:
1. عالمی قیادت: صدر اوباما نے مسلسل امریکی قیادت کی اہمیت اور عالمی ضرورت کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کے لئے ان مقامات
کی مثالیں پیش کیں جہاں ہمارے ملک نے فلپائن، نائجیریا اور یوکرین سمیت، اپنے منفرد کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ خواہ موسمی تبدیلی کا مقابلہ کرنا ہو یا ترقی پذیر جمہوریتوں کی بدعنوانیوں کے خاتمے میں مدد کرنا ہو، صدر نے یہ واضح کیا کہ امریکہ واحد ملک ہے جو ان مشکلات کے حل کے لئے وسائل اور صلاحیت رکھتا ہے۔
2. عالمی سطح پر موجودگی: صدر نے کہا کہ اکیسویں صدی میں الگ تھلگ رہنا اختیاری نہیں ہے۔ ہماری سرحدوں سے باہر جو کچھ ہورہا ہے اس سے نظر پھیرنے سے ہماری قومی سلامتی پر،موجودہ اور آئندہ نسلوں پر، منفی اثر پڑے گا۔ صدر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ فوجی طاقت کے استعمال میں تب کبھی نہیں ہچکچائے گا جب ہمارے ’’ مرکزی مفادات اس کا تقاضہ کریں گے۔‘‘ لیکن، دوسری اقوام کے ساتھ سفارت کاری اور شراکت داری کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے متنبہ کیا کہ تمام عالمی مسائل کا حل، فوجی نہیں ہے۔
3. افغانستان: جیسا کہ صدر اوباما نے منگل کو اعلان کیا، امریکہ 2016 کے آخر تک، سفارت خانے کی معمول کی ضرورت کے علاوہ افغانستان سے تمام فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔ کیڈٹوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہمارے فوجیوں کو واپس وطن لانے اور افغانستان کی جنگ کو ایک ذمہ دارانہ طریقے سے ختم کرنے کے اِس عزم کا اعادہ کیا۔
4. انسداد دہشت گردی کی کوششیں: مرکزی القاعدہ کے تقریباً تباہ ہو جانے کے بعد، صدرنے انسداد دہشت گردی کی ایک نئی تزویراتی حکمت عملی کا اعلان کیا جو دہشت گردوں کے گروہوں کے غیر مرکزی ساتھیوں اور دیگر انتہاپسند گروہوں پر، مرکوز ہوگی۔ اس کاوش کا کلیدی حصہ 5 بلین ڈالر کا دہشت گردی کے انسداد کی شراکت داریوں کا ایسا فنڈ ہو گا، جس سے دیگر ممالک کے فوجیوں کی تربیت کرنا اور اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جائے گا۔ دہشت گرد دنیا میں جہاں کہیں بھی کاروائی کر رہے ہیں، ان وسائل سے امریکی افواج کی ان کے خلاف لڑنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔
5. شام: صدر اوباما نے شام میں فوجی مداخلت نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا۔ انہوں نے شام میں جاری بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی کوششوں اور ، ہمارے اتحادیوں، شامی حزب مخالف اور شامیوں کے حقوق کے لئے لڑنے والوں کے لئے، نئی امداد کا وعدہ کیا۔ انتظامیہ شام کے ہمسایوں — اردن، لبنان، ترکی، اور عراق – کی مدد کرنے کی کوششوں کو تیز کرے گی کیونکہ ان پر پناہ گزینوں اور ان کی سرحدوں سے اس پار، شام میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے آجانے کی وجہ سے، دن بدن بوجھ بڑھ رہے ہیں۔
6. بین الاقوامی ادارے: صدر نے نیٹو، اقوام متحدہ، عالمی بنک، اور آئی ایم ایف جیسے موجودہ عالمی اداروں کو مضبوط بنانے اور جو کام وہ کررہے ہیں ان کے اس کام کی حمایت کو جاری رکھنے کا ایک مضبوط مقدمہ پیش کیا تا کہ دنیا بھر میں امن اور انسانی ترقی کی حمایت کو جاری رکھنے میں مدد کی جا سکے۔ اس کی ایک مثال کے طور پر انہوں نے روس کی یوکرین میں جارحیت کے خلاف نیٹو اور یورپی یونین کے متحدہ ردعمل کا ذکر کیا۔
7. یوکرین: یوکرین میں حالیہ انتخابات کے بعد، صدر اوباما نے یوکرین کی حکومت اور عوام کا، اپنے لئے ایک نئی راہ متعین کرنے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں، آگے بڑھنے کے بارے میں ہمارے عزم کا اعادہ کیا۔
8. ایران: واشنگٹن جس طرح اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرتا ہے، صدر نے 2009 میں ایران کو طاقت کی نسبت اقتصادی پابندیوں کے ذریعے سودے بازی کی میز پر لانے کے لئے تشکیل دئے گئے اتحاد کی کامیابی کی، ایک اور مثال پر بات کی۔ انہوں نے کہا اس اشتراک نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر ہمارے اختلافات کو پرامن طریقے سے طے کرنے کی گنجائش پیدا کردی ہے۔
9. عالمی موسمی تبدیلی: صدر نے موسمی تبدیلی کو قومی سلامتی کے لئے نہات اہم قرار دیا۔ انہوں نے یہ یقینی بنانے کا وعدہ کیا کہ امریکہ ’’ ہمارے کرہ ارض کو محفوظ رکھنے کی خاطرایک عالمی ڈھانچہ تشکیل دینے کے لئے سب سے آگے‘‘ ہوگا۔ اورایک علامتی جملے میں انہوں نے کہا،’’ امریکی اثر اس وقت ہمیشہ مضبوط تر ہوتا ہے جب ہم اپنے عمل سے قیادت کرتے ہیں۔‘‘
10. جمہوریت اور انساتی حقوق: مثالوں کی بات کرتے ہوئے صدر نے کہا امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے منفرد وسائل کو استعمال کرکے دنیا بھر کے عوام کو طاقتور بنا رہا ہے اور انہوں نے کہا امریکی سفارت کاری، بیرونی امداد، اور ہماری فوج کی کو کوششوں سے، پوری تاریخ کی نسبت آج سب سے زیادہ لوگ منتخب حکومتوں میں رہ رہے ہیں۔
اس تقریر سے میں نے جو سمجھا ہے وہ شدت سے یہ احساس ہے کہ صدر اوباما اگلی دہائی کے لئے ایک ایسی خارجہ پالیسی بیان کر رہے تھے جس میں گزشتہ دہائی کی خامیوں اور خوبیوں سے سبق حاصل کیا گیا ہے۔
(فرانٹز عوامی امور کے سیکرٹری آف سٹیٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔