ایران کے اسلامی انقلاب کے سرخیل امام خمینی کا مقبرہ دنیا کا مہنگا ترین مزار
ایران میں سنہ1979ء میں برپا اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی رضا شاہ پہلوی کی ظالمانہ بادشاہت کے خلاف فرشتہ اجل اور مظلوم وضعیف ایرانی قوم کے نجات دہندہ کے طورپر آئے تو کثیرقومی ملک کے عوام نے اُنہیں ‘رحمت کا فرشتہ’ سمجھا۔ امام خمینی کے مظلوم کو انصاف،معاشرتی مساوات، بنیادی حقوق اور
شہری آزادیوں جیسے بلند بانگ نعروں سے عوام بہت متاثر ہوئے اور یہی سمجھنے لگے کہ یہ درویش صفت انسان عشروں پر پھیلے استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے اورغُربت وجہالت میں پسی عوام کی ڈوبتی نیا کو کنارے پرلگا دیں گے۔
انقلاب کے آغاز میں “امام خمینی” کے نعرے عوام کے دلوں میں گھرکرگئے اور لوگ بلا تفریق مذہب و مسلک خمینی کو “ضعیفوں” اور کمزورں کا مددگار سمجھنے لگے۔ خود امام خمینی نے علی الاعلان باربار کہا کہ وہ ایک دینی درسگاہ کے تعلیم یافتہ درویش صفت انسان ہیں جس نے ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں اور کچے فرش پر بیٹھ کر ‘قال اللہ و قال رسول’ کی تعلیم حاصل کی۔ اس لیے میرا ایران کے شاہی محلات سے دور دور تک بھی واسطہ نہیں۔ یہ سب عوام کی ملکیت ہیں۔ میرے لیے تو بس ایک چھوٹی سی “کٹیا” ہی کافی ہے جس میں ایک درویش کے طورپر زندگی گذار سکوں۔ امام خمینی نے اپنی تقاریر میں ملک پرصدیوں سے مسلط اشرافیہ کو بار بار للکارا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی لغات میں “کمزور”، مظلوم، “جابر” اور “طاقتور” جیسے الفاظ اپنے مخصوص معانی کے ساتھ ضرب المثل بنتے چلے گئے۔ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ ایک ایک شہری کو اس کے گھرکی دہلیز پربنیادی سہولیات فراہم کریں گے۔ پانی بجلی، تعلیم، صحت ،مواصلات حتیٰ کہ بنیادی ضروریات کی تمام اشیاء عوام کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ مفررو ہونے والے بادشاہ رضا شاہ پہلوی اور ان کے دور اقتدار میں قوم کا پیسہ ہڑپ کرنے والوں کا کڑا اور بے لاگ احتساب ہوگا اور قوم کی ایک ایک پائی قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔
امام خمینی کی درویشی اور سادگی اپنی جگہ مگر ان کے جانشینوں نے ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کیا گل کھلائے، اس پرعقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اگرچہ انقلاب کے بعد امام خمینی کے نعرے ان کی موجودگی ہی میں ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہو گئے تھے مگر ان کے جان نشیوں کی شہ خرچیاں انسان کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیتی ہیں۔ قوم کی پائی پائی خزانے میں جمع کرنے کے دعوے داروں نے امام خمینی کے مزارپر اتنی دولت لٹا دی کہ اب تہران میں واقع امام خمینی کا مزار دنیا کا سب سے مہنگا ترین مقبرہ بن چکا ہے۔
ایک طرف یہ عالم ہے کہ ایرانی مذہبی اشرافیہ امام خمینی جسے”ضعیفوں کا امام” کہا جاتا تھا آج ان کے مقبرے پراربوں ڈالر قومی خزانے سےپھونک چکی ہے۔ دوسری طرف ایران کے دارالحکومت تہران میں ہزاروں لوگ رات فٹ پاتھ پرگذارتے ہیں۔ ملک کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر سےنیچے زندگی بسرکررہی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی کھال نوچ لی ہے مگر دوسری طرف مذہبی اور اسلامی انقلاب کے “محافظ” قومی خزانے پر اژدھے بنے بیٹھے ہیں۔ وہ اربوں ڈالر کی مالیت سے ایک مزار کی تعمیرکو قومی ‘بنیادی ضرورت’ قرار دیتے ہیں۔
ایران کے ایک شدت پسند رہ نماء احمد توکلی کی ویب سائیٹ” الف” کے مطابق 15 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارتے ہیں لیکن آزاد ذرائع غربت کا شکار عوام کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بیان کرتے ہیں۔
مزار پر دو سال میں دو ارب ڈالرخرچ
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں ایران میں درویش صفت امام خمینی کے دنیا کے مہنگے ترین مزارپر روشنی ڈالی ہے۔”ڈویچ” نامی ایک جرمن ویب سائیٹ کے مطابق امام خمینی کے سنہ 1989ء میں وفات کے بعد صرف دو سال میں ان کے مزارکی تعمیر اور اس کی تزئین آرائش پر قومی خزانے سے دو ارب ڈالر کی رقم خرچ کی گئی تھی لیکن آج تک 24 سالوں میں کسی ایرانی رہ نماء نے نہیں بتایا کہ امام خمینی کے مزار پرپانی کی طرح کتنا پیسہ بہایا گیا ہے؟۔
ایرانی انقلاب کے بعد ” جہاد البناء” کے نام سے ایک اقتصادی ادارہ قائم کیا گیا۔ اہم مذہبی مراکز اور مزارات کی تعمیر اس ادارے کے ذمہ داری تھی۔ اس تنظیم نے امام خمینی کے مزار کو ایک مذہبی اور سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کے لیے غیرمعمولی بجٹ مانگا جو اسے دے دیا گیا۔ مزار کے آس پاس پنج ستارہ ہوٹل، بازار اور تجارتی مراکز قائم کیے گئے۔ مزار کے میناروں کو دنیا کے مہنگے ترین ماربل اور قیمتی پتھروں سے مزین کیا گیا۔ ان پر سونے کی قلعی کی گئی اور مزار کی اندرونی دیواروں اور ملحقہ امام بارگاہ پرایران کی مہنگی ترین پچی کاری گئی۔ اس کے بعد اس عالی شان مزار کا نام”حرم امام خمینی” اور “کمزوروں کے والی کی آخری آرام گاہ” قرار پایا۔
اخبار”اطلاعات” نے سنہ 1992ء میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ امام خمینی کے مزارکا مجموعی رقبہ 6 لاکھ مربع فٹ ہے جس کا طول ایک کلو میٹر اورعرض پانچ سو میٹر ہے۔ یوں یہ مزار نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھرمیں عیسائی، یہودی اور مسلم مزارات کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین مزار ہے۔
زلزلہ پروف عمارت
ایران بالخصوص تہران اکثر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی کا مزار ایک زلزلہ پروف عمارت بنائی گئی ہے۔ ریختراسکیل پراگر 10 ڈگری کا بھی زلزلہ آئے تب بھی اس سے مزار کی عمارت کو کوئی خطرہ نہیں۔ مزار کے بانی معمار کا دعویٰ ہے کہ یہ مزار تہران کی سب سے مضبوط اور محفوظ ترین عمارت ہے۔
مزار کی چھت پر بنے سنہری گنبد کا وزن 340 ٹن بتایا جاتا ہے جس کے ارد گرد 50 ٹن کا اضافی حفاظتی دائرہ بھی بنایا گیا ہے۔ مزار کے چاروں کناروں پر بنے سنہری میناروں میں سے ہرایک کی اونچائی 91 میٹر ہے۔ مزار کی مشرقی اور مگربی سمتوں میں پانچ داخلی دروازے ہیں۔ مزارسے ملحقہ ایک میوزیم 15 ہزار مربع میٹر پرپھیلا ہوا ہے۔
سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور اقتدار میں مزار “خمینی” کے قریب 800 ارب ایرانی ٹومان کی لاگت سے “شہرآفتاب” کے نام سے ایک نمائش گاہ بھی بنائی گئی جہاں ہرسال ایران کی سالانہ نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک اسپتال، ایک سیکیورٹی سینٹر، ہوٹل، تجارتی مراکز، ثفاقتی مراکز اور خوبصورت گیلریاں بھی مزار کا حصہ بن چکی ہیں۔ یوں یہ مزار اہل تشیع کے مذہبی مراکز قم، کربلا اور نجف میں موجود مزارات سے بھی مہنگا اور بڑا ہے۔
پیرس میں جلاوطنی کے زمانے میں امام خمینی کے ساتھی ڈاکٹر عطاء اللہ امیدوار نے کچھ عرصہ قبل مزار کا دورہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج تک انہوں نے اس قدر گراں قیمت مزار نہیں دیکھا۔
ایرانی قدامت پسند امام خمینی کے مزار کی تعمیر پربھاری اخراجات پرتنقید کو برداشت نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ امام خمینی نے سادہ زندگی بسرکی مگر ان کا مزار کسی کی زمین چھین کراس پرنہیں بنایا گیا اور نہ ہی مزار کی تعمیر میں قومی املاک کا حصہ ہے۔ یہ ایرانی قوم کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔