نئی دہلی:عظیم مجاہد آزادی نیتا جی سبھاش چندر بوس کے طیارے حادثے میں مارے جانے کی خبر ایک بار پھر سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔ حکومت کی جانب سے حال میں عام کی گئی نیتا جی سے متعلق خفیہ فائلوں میں ایک ایسا نوٹ ہے جس کے مطابق 18 اگست 1945 میں تائی پے میں طیارے کے حادثے کے بعد بھی نیتا جی نے تین بار ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا تھا۔منگل 28 مارچ کو حکومت کی جانب سے نیتا جی سے متعلق خفیہ فائلوں کی جو دوسری سیریز جاری کی گئی ہے اس میں فائل نمبر (870/11/p/1692/pol) میں نیتا جی کے ان تقریروں کا اصل متن موجود ہے ۔ ان فائلوں کے مطابق نیتا جی نے تائی پے طیارہ حادثے کے بعد پہلا ریڈیو خطاب 26 دسمبر 1945 کو، دوسرا جنوری 1946 اور تیسریکم فروری 1946 میں کیا تھا۔سمجھا جاتا ہے کہ ریڈیو نشریات کا متن بنگال کے گورنر ہاؤس سے دستیاب کرایا گیا تھا کیونکہ ان فائلوں میں ایک جگہ پر گورنر ہاؤس کے افسر پی سی کار کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ یہ نشر شدہ 31 میٹر بینڈ سے لیا گیا ہے ۔
اپنے پہلے ریڈیو پیغام میں نیتا جی نے کہا تھا ” میں دنیا کی عظیم طاقتوں کے سائے میں ہوں۔ میرا دل ہندوستان کے لئے رو رہا ہے ۔ جب عالمی جنگ عروج پر ہوگا تب میں ہندوستان جاؤں گا۔ اس موقع دس سال میں یا اس سے پہلے آ سکتا ہوں۔ تب میں ان لوگوں کا فیصلہ کروں گا جو لال قلعہ میں میرے لوگوں کے خلاف مقدمہ چلا رہے ہیں”۔ یکم جنوری 1946 کے دوسری نشریات میں نیتا جی نے کہا تھا ‘ہمیں دو سال میں آزادی مل جائے گی۔ برطانوی سامراج ٹوٹ چکا ہے اور اسے اب ہندوستان کو آزاد کرنا ہی پڑے گا۔ ہندوستان عدم تشدد کے ذریعے آزاد نہیں ھونے والا ہے ۔ میں پھر بھی گاندھی جی کا احترام کرتا ہوں۔ فروری 1946 میں اپنے تیسرے نشریات میں نیتا جی نے کہا تھا”میں سبھاش چندر بوس بول رہا ہوں ۔ جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد میں نے اپنے ہندوستانی بھائیوں اور بہنوں کو تیسری بار خطاب کر رہا ہوں۔ انگلینڈ کے وزیر اعظم پتھیک لارنس سمیت تین ارکان کو بھیجنے جا رہے ہیں۔ ان کا مقصد تمام طریقوں سے ہندوستان کا خون چوس کر برطانوی سامراج کے لئے مستقل تصفیہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں”۔
ان فائلوں میں مہاتما گاندھی کے سکریٹری رہے خورشید نوروجی کا امریکہ کے جانے مانے صحافی لوئس فشر کو لکھا ایک خط بھی ہے جس پر 22 جولائی 1946 کی تاریخ درج ہے ۔ اس خط میں نوروجی نے لکھا ہے کہ ہندوستانی فوج دل سے آزاد ہند فوج کے تئیں ہمدردی رکھتی ہے ، ایسے میں اگر بوس روس کی مدد سے آئے تو نہ گاندھی جی، نہ ہی نہرو اور نہ ہی کانگریس ملک کے باشندوں کو کچھ سمجھا پائے گی۔ مسٹر نوروجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر روس تشہیر کے مقصد سے خود کو ایشیائی ملک قرار دیتا ہے تو ہندوستان کی طرف سے کسی بھی یورپی اتحاد کو قبول کرنے کی کوئی امید نہیں ہوگی۔ اس خط میں ”نیتا جی کی واپسی” کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مصنف کو نیتا جی کے روس میں ہونے کے بارے میں پتہ تھا اور وہ اس اندیشہ سے گھرا تھا کہ نیتا جی روس کی حمایت سے ملک واپس آ سکتے ہیں۔ یہ وہ ثبوت ہیں جو ایک بار پھر اس بات کو جھٹلاتے ہے کہ نیتا جی کی موت طیارہ حادثے میں ہوئی تھی۔ تاہم 23 جنوری کو نیتا جی کی 119 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ان کی جو خفیہ فائلوں عام کی گئی تھیں ان میں 21 سالہ پرانے 1995 کے ایک کابینی نوٹ کا ذکر ہے جس کے مطابق آزاد ہندوستان کی حکومت یہ مان چکی تھی کہ نیتا جی کی موت اگست 1945 میں تائی پے طیارہ حادثے میں ہوئی تھی۔ اس نوٹ میں حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کو یہ بات جھوٹ لگتی ہے وہ منطقی سوچ کی بجائے جذباتی سوچ کی وجہ سے ایسی بات کہتے رہے ہیں۔ان فائلوں سے جو نیا سچ نکل کر آ رہا ہے ، وہ کچھ اور ہی سچ بیان کر رہا ہے ۔