از : مرل ڈیوڈ کیلرہالز جونیئر
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں آئندہ ہونے والے 68 ویں اجلاس کے دوران عمومی بحث کے افتتاح کی تیاری کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واشنگٹن‘ 20ستمبر 2013 : نگران اسسٹنٹ سیکرٹری ڈین پٹمین کا کہنا ہے کہ جن عالمی مسائل کا آج کل ممالک کو سامنا ہے وہ کثیر الجہتی سفارتکاری میں پرعزم سرمایہ کاری کے متقاضی ہیں اور اس کے لئے بہترین جگہ اقوام متحدہ کا نظام ہے۔
پٹمین نے واشنگٹن میں محکمہ خارجہ میں اپنے دفتر سے دیے گئے ایک وسیع البنیاد انٹرویو میں کہا کہ جیسا کہ صدر نے 2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں انتہائی وضاحت کے ساتھ کہا تھا، امریکہ کثیر الجہتی حکمت عملی میں اشتراک عمل کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔اس کا مقصد نہ صرف ان عالمی مسائل کے عالمی تصفیے تلاش کرنے کے لئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ شامل ہونا ہے بلکہ امریکی مفادات کے فروغ میں مدد کرنا بھی شامل ہے۔
پٹمین نے کہاکہ سمندر پار زیادہ محفوظ اور مستحکم ریاستیں قائم کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔ عالمی سطح پر بہتر طبی نگہداشت مہیا کرنا، ماحول کا تحفظ کرنا اور تمام متعلقہ معاملات امریکیوں کے ساتھ ساتھ باقی پوری دنیا کے لئے بھی فائدہ مند ہیں۔
پٹمین محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی تنظیموں کے امور کے بیورو کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ معاملات ہیں جو ریاستہائے متحدہ امریکہ یکطرفہ یا دوطرفہ طور پر حل نہیں کر سکتا، بلکہ اسے ”اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر متفقہ کوششیں کرنا ہوں گی۔“
انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لئے اقوام متحدہ بہترین جگہ ہے۔
پٹمین نے کہا کہ صدر اوبامہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ 23-27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس کے انعقاد کے موقع پر اور اس کے بعد جو کچھ کریں گے وہ کثیر الجہتی سفارتکاری کی اہمیت اور امریکہ کے عزم کو اجاگر کرنے کے لئے ہوگا۔ 24 ستمبر کو ممالک کے مابین عمومی بحث کا آغازہوگا۔ سیکرٹری جنرل بان کی مون 23 ستمبر کو افتتاح کے دن معذور افراد کے بارے میں ایک اعلی سطحی اجلاس کی میزبانی کریں گے۔
پٹمین نے واشنگٹن میں جارج ٹاو¿ن یونیورسٹی میں ایک حالیہ تقریر میں کہا کہ مسائل تو درپیش ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سنگین طور پر اتنا خطرناک نہیں ہے جو ہمارے قومی مفادات کے لئے کثیر الجہتی اداروں کے قیام اور استعمال کے عزم کو کمزور کر سکے۔
انہوں نے کہاکہ درحقیقت ان مسائل کے باوجود اس بات کے کافی زیادہ ثبوت ہیں کہ امریکی قیادت اقوام متحدہ کے نظام کے اندر اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک انتہائی اہم اور مثبت تبدیلی لا رہی ہے۔
حسب روایت امریکی صدر عمومی بحث کے پہلے منگل کی صبح کو عالمی رہنماو¿ں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہیں۔ پروگرام کے مطابق صدر اوبامہ 24 ستمبر کو خطاب کریں گے۔ عمومی بحث کا ہفتہ اقوام متحدہ میں زیادہ دلچسپ لمحات میں سے ایک ہوتا ہے کیونکہ 193 ممالک کے رہنماو¿ں کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ موضوعات اور مضامین اکثر اتنے ہی وسیع اور مختلف ہوتے ہیں جیسا کہ اس ادارے کی رکنیت ہے۔
پٹمین کا کہنا ہے کہ نئے اجلاس کےلئے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے تین بڑے مقاصد ہیں:
• زیادہ پرامن اورمحفوظ دنیا کو فروغ دینا۔
• پائیدار ترقی اور انسانی حقوق کی کوششوں کو آگے بڑھانا۔
• اقوام متحدہ کو ایک زیادہ مو¿ثر نظام بنانے کے لئے ”انتہائی سخت“محنت کرنا۔
پٹمین نے کہا کہ اہم عناصرجو اس سال کی [جنرل اسمبلی] کی توجہ کا مرکز ہوں گے میں سے ایک بعد از 2015 ”ایک ہزاریئے کے ترقیاتی مقاصد“ ( ملینیم ڈیولپمنٹ گولزایم-ڈی-جی) کا ایجنڈا ہوگا جو کامیاب تو رہا ہے لیکن مکمل نہیں ہوسکا۔
انھوں نے کہا، ”پائیدار ترقی، ماحولیاتی مسائل، عالمی صحت اور دنیا بھر میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دینے والے مختلف انواع کے مسائل سے نمٹنے کے لیئے ہم جیسے آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں اس پیش رفت کی سمت کا تعین کرنے کے لئے 2015 کے ایجنڈے کے طریق کار کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم اسے کلیت کے انداز سے دیکھیں کیونکہ ترقی اور استحکام اور تعلیم اور اقتصادی مواقع باہمی طور پر بہت زیادہ مربوط ہیں۔“
پٹمین نے اپنے جارج ٹاو¿ن کے خطاب میں بتا یا کہ انتہائی غربت کی شرح کو نصف تک کم کرنے کا ایم-ڈی-جی کا پہلا ہدف 2010 میں نہ صرف پورا ہوا بلکہ تجاوز کر گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم-ڈی-جی کے ہدف کی ایک اور مثال 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کو 1999 میں 12 ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) سے کم کر کے 2011 میں 6.9 ملین (69 لاکھ) تک لانا ہے۔
صدر اوبامہ سول سوسائٹی کے بارے میں ایک تقریب میں شرکت کریں گے جو اس بات پر زور دیتی ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ انفرادی شہریوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے اس کام کو جو اقوام متحدہ اور دیگر ادارے دنیا بھر میں سرانجام دے رہے ہیں کی اہمیت کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ پٹمین نے کہا کہ درحقیقت سول سوسائٹی کی شمولیت اور شراکت عمل ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم تک رسائی، ایچ آئی وی/ایڈز اور ملیریا کا مقابلہ کرنے اور بھوک میں کمی لانے جیسے ایم-ڈی-جی کے اہداف میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
پٹمین نے کہا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے قیام امن کے مشنوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ یہ کوششں بھی کر رہا ہے کہ اقوام متحدہ اور فوجی فراہم کرنے والے ممالک کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے ان کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے، تربیت فراہم کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہیںمقاصد کے حصول کے لئے درکار آلات اور اختیارات میسر ہوں۔ باقی سب لوگوں کے بھی یہی مقاصد ہیں۔ انہوں نے کہا، ”اور اس سے درحقیقت مستحکم معاشروں کے قیام کے لئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔“
پٹمین نے کہا کہ خارجہ امور میں نوجوانوں کی جانب سے معنی خیز آواز بلند کرنے میں بھی نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا،”میرے خیال میں ہم بلا تامل کہہ سکتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہر نسل کی بین الاقوامی طور پر عملی شرکت پہلے سے زیادہ ہوئی ہے۔“
پٹمین نے اپنے جارج ٹاو¿ن کے خطاب میں کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ نوجوان افراد کے لئے کیا اہم ہے۔ ان کے نزدیک مو¿ثر سیاسی شمولیت کے مواقع، تعلیم تک رسائی، معنی خیز ملازمت کی امید، اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے محفوظ اور صحت مندانہ مستقبل اہم ہیں۔
اس مقصد کے لئے ریاستہائے متحدہ امریکہ یو ایس یوتھ آبزرور پروگرام (نوجوان امریکی مشاہدہ کاروں کے پروگرام) کی سرپرستی کرتا ہے تا کہ امریکہ کی کثیر الجہتی سفارتکاری کی کوششوں میں نوجوانوں کی آواز میں اضافہ کیا جا سکے۔ کالج جانے والی ایک امریکی طالبہ ٹفنی ٹیلر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جائیں گی۔ وہ ایک سال کے عرصے کے دوران اقوام متحدہ اور اس کے دیگر اداروں کے اجلاس اور تقریبات میں شرکت کریں گی۔
محکمہ خارجہ کا بین الاقوامی تنظیموں کے امور کا بیورو سفارتکاروں کی ٹیموں کے امریکی مشنوں کے ذریعے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں میں امریکی حکومت کا بنیادی نمائندہ ہے۔