میلبورن۔چار بار کے چمپئن آسٹریلیا اور پہلی بار عالمی کپ جیتنے کی کوشش میں لگے نیوزی لینڈ کی کرکٹ دشمنی میں کل یہاں نئی تاریخ لکھی جائے گی جب یہ دونوں ٹیم پہلی بار ایم سی جی میں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں ایک دوسرے کے سامنے ہوں گی۔گیارہ ٹورنامنٹوں میں پہلی بار فائنل میں جگہ بنانے والے نیوزی لینڈ کو اس آسٹریلیا کا سامنا کرنا ہے جس کے نام پر نہ صرف سب سے زیادہ عالمی خطاب ہیں بل
کہ اس نے 1975 سے اب تک سب سے زیادہ سات بار فائنل میں داخلہ حاصل کیاہے۔آسٹریلیا کو بڑے ٹورنامنٹوں کے فائنل میں کھیلنے کا کافی تجربہ ہے جبکہ نیوزی لینڈ کے پاس تاریخ رقم کرنے کا موقع ہو گا۔دنیا کو کئی بڑے کرکٹر دینے کے باوجود نیوزی لینڈ کی ٹیم عالمی کرکٹ میں اتنی کامیاب نہیں رہی۔ عالمی کرکٹ میں نیوزی لینڈ کو سب سے بڑی کامیابی 2000 میں ملی جب اس نے نیروبی میں آئی سی سی چمپئنس ٹرافی کے فائنل میں ہندوستان کو شکست دی۔نیوزی لینڈ کی ٹیم عالمی کپ میں اس سے پہلے چھ بار سیمی فائنل تک پہنچی لیکن کبھی سیمی فائنل کی رکاوٹ کو پار نہیں کر پائی۔رچرڈ ہیڈلی، گلین ٹرنر، مارٹن کرو، اسٹیفن فلیمنگ جیسے قدآور کرکٹر قریب پہنچ کر بھی کبھی عالمی کپ کو اپنے ہاتھوں میں نہیں تھام پائے۔لیکن برینڈن میکلم کی قیادت والی موجودہ ٹیم میں کرکٹ کی سب سے بڑی ٹرافی جیتنے کیلئے تمام لوگ بیتاب ہیں اور سری لنکا کے خلاف ٹورنامنٹ کے پہلے میچ سمیت اس نے مسلسل آٹھ جیت درج کی ہیں۔نیوزی لینڈ نے فائنل تک کے اپنے سفر کے دوران دو قریبی میچ جیتے۔ ٹیم نے ایک میچ میں آسٹریلیا کو اپنی سر زمین پر ایک وکٹ سے شکست دے دی جبکہ سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف بڑے اسکور والا مقابلہ بھی کافی قریبی رہا۔آسٹریلیا کا سفر بھی کافی مشکل نہیں رہا۔ ٹیم کو اگرچہ نیوزی لینڈ کے خلاف شکست جھیلنی پڑی جبکہ بنگلہ دیش کے خلاف اس کا میچ بارش کی نذر گیا۔ کوارٹر فائنل میں اگرچہ ایک وقت پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا کو پریشان کرنے میں کامیاب رہی لیکن میزبان ٹیم بالآخر جیتنے میں کامیاب رہی۔آسٹریلیا نے اس کے بعد سیمی فائنل میں ہندوستان کے خلاف حوصلہ بڑھانے والی آسان جیت درج کی۔کاغذوں پر فائنل میں آسٹریلیا کو جیت کا مضبوط دعویدار مانا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں پر نظریں دوڑائیں تو آسٹریلیا زیادہ تر محکموں میں تھوڑا بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اس نے تمام میچ اپنے بڑے میدانوں پر جیتے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ نے اپنے ملک میں چھوٹے میدانوں پر جیت درج کی ہے۔نیوزی لینڈ کو کل کے میچ میں تجربہ کار اسپنر ڈینیل ویٹوری سے کافی امیدیں ہوں گی۔ بائیں ہاتھ کے اس اسپنر نے اب تک صرف 3۔ 98 رنز فی اوور کی سطح سے رن دیئے ہیں اور اس دوران آٹھ میچوں میں 15 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ گیندبازی میں ٹرینٹ بولٹ 21 وکٹ اور ٹم سائودی 15 وکٹ پر بھی ٹیم کی نظریں ٹکی ہوں گی۔دوسری طرف آسٹریلیا کیلئے نوجوان بلے باز اسٹیون اسمتھ میچ کا رخ بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے اب تک سات میچوں میں 346 رنز بنائے ہیں جس میں ہندوستان کے خلاف سیمی فائنل میں لگائی سنچری بھی شامل ہے۔ وہ فی الحال موجودہ عالمی کپ میں آسٹریلیا کے سب سے زیادہ کامیاب بلے باز ہیں۔نیوزی لینڈ کیلئے اگرچہ یہ اچھی خبر ہے کہ اس کے کپتان میکلم آسٹریلیا کے اپنے ہم منصب مائیکل کلارک کے مقابلے میں بہتر فارم میں ہیں اور ٹیم کو کل ان سے فیصلہ کن کردار کی امید ہوگی۔ٹیموں کو بڑے مقابلوں میں ہمیشہ سے اپنے کپتانوں سے کافی امید رہتی ہے۔ کلائیو لائڈ 1975، عمران خان 1992، رکی پونٹنگ 2003 اور مہندر سنگھ دھونی 2011 میں اپنی ٹیم کو خطاب دلانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر چکے ہیں۔میکلم اور ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے رہے کلارک کیلئے کل کافی اہم دن ہوگا۔میکلم اگر اپنے جارحانہ انداز سے مشیل اسٹارک 20 وکٹ اور جوش ہجل وڈ سے پار پا لیتے ہیں تو آسٹریلوی ٹیم کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنا پڑ سکتا ہے۔کپتان کا ساتھ دینے کیلئے مارٹن گپٹل بھی تیار ہیں جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کوارٹر فائنل میں آؤٹ ڈبل سنچری لگائی تھی۔ گپٹل نے اب تک 532 رنز بنائے ہیں اور وہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنانے والا کھلاڑی بننے کی راہ پر ہیں۔نیوزی لینڈ کے پاس گرانٹ ایلیٹ اور کوری اینڈرسن جیسے آل راؤنڈر بھی ہیں۔ ایلیٹ نے ٹیم کو سیمی فائنل میں جیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ اینڈرسن کو ان طاقتور شاٹ کیلئے جانا جاتا ہے۔آسٹریلیا کے پاس بھی اسٹار بلے بازوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سلامی بلے باز ڈیوڈ وارنر اور آرون فنچ فائنل میں اپنی چھاپ چھوڑنا چاہیں گے۔ گلین میکسویل بھی ایک اور طوفانی اننگز کھیلنے کیلئے تیار ہوں گے۔یقینی طور پر ایم سی جی پر آسٹریلیا کا پلڑا بھاری ہوگا لیکن کوئی نیوزی لینڈ کو کمتر نظر اندازکرنے کی غلطی نہیں کرنا چاہے گا۔