اروند کیجریوال جو دہلی کے عوام سے وعدے کرکے دہلی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، اپنے اس مذکورہ مذکورہ منتخب منصب پر چند ماہ رہنے کے بعد استعفیٰ بے دیا، استعفیٰ دینے کی وجہ یہ رہی کہ ان کو جن لوک پال بل پاس کرانے میں حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اروند کجریوال نے دہلی کے عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ کسی بھی طرح پورے نہیں ہوسکے اس طرح کجریوال دہلی کے عوام کو مجدھار میں نیا چھوڑ کر غائب ہوگئے۔ اور اب دہلی اسمبلی کے بعد مرکز میں حکومت قائم کرنے کی سیاسی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ ان کی پوری پوری کوشش یہ ہے کہ ان کی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی سبھالوک سبھا الیکشن میں کس طرح کامیاب ہوجائے اور اپنی اس کامیابی کے نشے میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر یہ بھول رہے ہیں کہ ان کو کسی بھی طرح اتنا ووٹ حاصل نہیں ہوسکتا کہ یہ مرکز میں اپنی مخلوط حکومت بھی قائم کرسکیں۔ انہوںنے دہلی کے عوام کے ساتھ جس طرح عمل کیا ہے اس کا جواب اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کو لوک سبھا الیکشن اور دہلی اسمبلی الیکشن میں ساتھ ساتھ دیںگے۔ یعنی دہلی کے عوام بری طرح عام آدمی پارٹی کے خلاف پوچکے ہیں۔ اور آنے والے لوک سبھا اور دہلی اسمبلی میں کوئی ووٹ دینے والا نہیں ہے جو ووٹ حاصل ہوگا وہ ان ہی لوگوں کا حاصل ہوگا جو صرف عام آدمی پارٹی سے سیاسی طور پر وابستہ ہیں ان کے علاوہ ووٹ حاصل نہیں ہوگا۔
اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی الیکشن میں جس طرح کامیابی حاصل کی تھی اس کامیابی نے ان کو اب نہ دہلی کا رکھا اور نہ لوک سبھا الیکشن کا رکھا۔ یہ عام آدمی پارٹی دونوں طرف سے سیاسی طور پر کنارے لگ چکی ہے۔ اس کی شکست دہلی اسمبلی میں بھی ہونی ہے اور لوک سبھا الیکشن میں بھی، اس الیکشن کے بعد عام آدمی پارٹی کا وہی سیاسی حشر ہوگا جو ماضی میں جنتا پارٹی کا ہوا تھا۔ آج جنتا پارٹی کا کوئی وجود نہیں رہا۔ اور ایک وقت تھا کہ جنتا پارٹی یعنی وہ پارٹی جس میں ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈر شامل ہوئے تھے اور ان کا اصل مقصد صرف یہ ہی تھا کہ کانگریس کو شکست دینا ہے کانگریس کو شکست ہوئی لیکن دو سال بعد ہی کانگریس پھر اقتدار میں آگئی تھی۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ کانگریس ہی حکومت کرنے کے لائق ہے۔ اب عام آدمی پارٹی کانگریس کے مقابل دہلی الیکشن میں کامیاب ہوئی ہے لیکن یہ کامیاب اس کو علاثابت ہوگی۔ اور پھر کانگریس کے ہاتھ میں حکومت آئے گی۔(یو این این)