سنّی رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ مقامی آبادی کو سنی اکثریتی صوبوں کا انتظام چلانے کا موقع دیا جائے
عراق میں سنی العقیدہ مسلمانوں کے کچھ رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ملک کے نئے شیعہ وزیراعظم کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو ملک میں جاری سیاسی ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
عراق میں اس وقت شیعہ اکثریتی حکومت ملک کے شمالی علاقوں میں دولتِ اسلامیہ کے سنّی شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے
دولتِ اسلامیہ کی کارروائیوں کی وجہ سے شمالی عراق سے بارہ لاکھ شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں جن میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے
افراد کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔
عراق میں شیعوں کی سب سے بااثر شخصیت آیت اللہ علی سیستانی نے جمعے کو ملک کے نئے وزیراعظم حیدر العبادی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
ان کے نمائندے نے نئے وزیراعظم سے کہا تھا کہ وہ ایک ’مضبوط اور موثر حکومت‘ قائم کریں۔
اس کے بعد ملک کی سنّی اکثریتی آبادی والے صوبوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ نئی حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں اگر ان کے علاقے میں سکیورٹی اور انتظامی امور کو وہی درجہ دیا جائے جو مرکزی حکومت کو حاصل ہے۔
ان رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ مقامی آبادی کو سنی اکثریتی صوبوں کا انتظام چلانے کا موقع دیا جائے۔
صوبہ انبار میں ذرائع نے بی بی سی کی عربی سروس کو بتایا ہے کہ مشترکہ بیان چھ صوبوں کے سنّی رہنماؤں نے تحریر کیا ہے اور اسے انقلابی قبائلیوں اور فوجی کونسلوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اس سے قبل ملک کے وزیراعظم نوری المالکی نے جمعرات کو عراقی پارلیمان کے نائب سپیکر حیدر العبادی کے لیے اپنا عہدہ چھوڑنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی ہے۔
یاد رہے کہ عراق میں جاری سیاسی بحران کے پیشِ نظر ملک کے صدر نے حیدر العبادی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی تاہم نوری المالکی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ عراق میں سیاسی ڈیڈ لاک کا ذمہ دار نوری المالکی کو ٹھہراتا ہے۔ ان کی حکومت کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ دیگر سیاسی عناصر کے تحفظات کا خیال نہیں کرتے رہے ہیں۔
ان پر عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ میں اس وقت اضافہ ہوا جب صدر فواد معصوم سمیت ان کے شیعہ مسلک کے سیاسی اتحادیوں نے حیدر العبادی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔