شدت پسندوں نے مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے کارخانے پر حملہ کیا اور اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے
عراق میں سُنی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے جنگجوؤں نے ملک میں تیل کے سب سے بڑے کارخانے پر حملہ کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ شدت پسندوں نے دارالحکومت بغداد سے شمال کی جانب 210 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کارخانے کے 75 فی صد حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق خودکار ہتھیاروں سے مسلح شدت پسندوں نےگرینج کے معیاری وقت کے مطابق رات ایک بجے بیجی آئل ریفائنری کے تین میں سے دو مرکزی دروازوں پر حملہ کیا۔
کارخانے میں اضافی پرزوں کے گودام سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہاں موجود تیل کے ذخائر کو نقصان پہنچا ہے۔
تیل کے کارخانے میں موجود ایک ایک نامعلوم اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’شدت پسند کارخانے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، اب پیداواری یونٹ، انتظامی بلاک اور نگرانی کے چار ٹاوروں پر ان کا قبضہ ہے اور یہ کارخانے کا 75 فیصد حصہ ہے۔‘
دارالحکومت بغداد کے شہری غذائی اجناس جمع کرنے میں مصروف ہیں
دوسری جانب شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان دارالحکومت سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر بعقوبہ کے مقام پر جنگ جاری ہے جہاں شیعہ جنگجوؤں نے سکیورٹی فورسز کے ہمراہ مل کر انھیں پسپا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بغداد کے شہری فکرمند ہیں کیونکہ حملہ آور شمال اور مغرب کی جانب سے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جنگجوؤں نے گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران عراق کے بعض اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن بدھ کو اپنے سینیئر سکیورٹی مشیروں سے اس بحران کے متعلق بات کرنے والے ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ داعش ’ہمارے ملک کے لیے حقیقی خطرات‘ کی نمائندگی کرتی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر براک اوباما بدھ کو کانگریس کے بڑے رہنماؤں کو عراق کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کریں گے۔
امریکی حکام نے خبررساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ امریکہ عراق میں سکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے مختصر پیمانے پر سپیشل فورسز کی چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے بارے میں غور کر رہا ہے۔
جنگجوؤں نے گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران عراق کے بعض اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے
اس سے قبل عراقی صدر نوری المالکی نے اسلام پسند سنی باغیوں کو روکنے میں ناکامی پر کئی سینیئر اہلکاروں کو برطرف کر دیا ہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چار فوجی کمانڈروں کو قومی فریضے کی انجام دہی میں ناکامی کی پاداش میں برطرف کر دیا گيا ہے۔
برطرف کیے جانے والے فوجی افسروں میں نینوا صوبے کے کمانڈر بھی شامل ہیں۔ نینوا پہلا صوبہ ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔
سرکاری بیان کے مطابق میدانِ جنگ میں اپنی پوزیشن چھوڑنے کے الزام میں ایک اور سینیئر فوجی افسر کو ان کی غیر موجودگی میں کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
بیان میں معمول کے خلاف سخت زبان کا استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب پر داعش کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں زیادہ تر سنی مسلمان رہتے ہیں۔
نمائندوں کا کہنا ہے کہ عراق کے شیعہ علاقوں میں روزانہ دھماکے ہو رہے ہیں جبکہ بغداد کے لوگوں میں ذہنی طور پر محصور ہونے کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
دولت مند افراد نے ضروری اشیائے خوردنی کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ بغداد میں اشیائے خوردنی کی کمی نہیں اور یہ کہ باغی بغداد پر قبضہ نہیں کر سکیں گے۔
عراقی شیعہ نوجوان شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں سکیورٹی فورسز کا ساتھ دے رہے ہیں
دوسری جانب منگل کی شام نوری المالکی اور ان کی حکومت کے سینيئر شیعہ رہنماؤں کے ساتھ سنّی رہنماؤں نے بھی ’قومی اتحاد‘ کی اپیل کی ہے۔
انھوں نے عراقیوں سے فرقہ وارانہ مخاصمت سے بچنے کی اپیل کی ہے۔
بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار جان سمپسن کہنا ہے کہ بہت سے سنّی بطور خاص قدامت پرست، جو آٹھ سال قبل القاعدہ کے خلاف ہو گئے تھے اور جن کی وجہ سے امریکی فوج کو عراق چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا، اس بات سے قطعی خوش نہیں ہیں کہ ان کے شہروں اور قصبوں پر داعش کے لوگوں کا قبضہ ہو۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیعہ رضاکاروں کی جانب سے جوابی کارروائیوں میں عام سنّیوں کو نشانہ بنائے جانے کے نتیجے میں یہ خطرہ ہے کہ کہیں وہ یہ محسوس نہ کرنے لگیں کہ داعش ہی واحد گروپ ہے جو انھیں تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے داعش کے جنگجوؤں نے موصل اور تکریت سمیت کئی دوسرے قصبوں پر قبضہ کر لیا تھا، مگر عراقی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی قصبے جنگجوؤں کے قبضے سے آزاد کروا لیے ہیں۔