بغداد ۔ القاعدہ سے وابستہ جنگجو تنظیم دولت اسلامی عراق وشام (داعش) نے عراق کے دو بڑے شہروں پر گذشتہ ہفتے دوران قبضے کے بعد ایک ویب سائٹ پر سرکاری فوجیوں کے قتل عام کی خوف ناک تصاویر پوسٹ کی ہیں۔
ان تصاویر میں داعش کے نقاب پوش دہشت گرد بیسیوں کی تعداد میں عراقی فوجیوں کو قطار میں کھڑا کرکے بیک وقت گولیاں مار رہے ہیں۔بعض تصاویر میں عراقی فوجی فائرنگ کے بعد مرے پڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔داعش کے دہشت گرد شمالی شہروں پر قبضے کے دوران پکڑے گئے عراقی فوجیوں کو ٹرکوں میں لاد کر لا رہے ہیں۔
موت کے گھاٹ پر لائے گئے فوجیوں کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں اور وہ زبردستی ان کے چہرے ایک کھائی کی طرف کرارہے ہیں۔اس کے بعد وہ ان پر فائرنگ کردیتے ہیں۔آخری تصویر میں عراقی فوجیوں کو گولیاں لگنے کے بعد خون میں لت پت دیکھا جاسکتا ہے۔
عراقی فوج میں اہل تشیع کی اکثریت ہے اور گرفتار فوجیوں کے اس طرح بے دردی سے اجتماعی قتل کی تصاویر منظرعام پر آنے کے بعد خانہ جنگی کا شکار ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ ملے گا جبکہ عراق کے مشہور شیعہ رہ نما آیت اللہ علی سیستانی پہلے شیعہ نوجوانوں کو داعش کے دہشت گرد وں کے مقابلے میں منظم اور مسلح ہونے کا کہہ چکے ہیں۔
سیاہ لباس میں ملبوس داعش کے دہشت گردوں نے مقامی مسلح مزاحمت کاروں کی مدد سے گذشتہ ہفتے کے دوران عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل ،سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت اور شمال میں واقع دوسرے چھوٹے، بڑے شہروں اور قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں سے عراقی فوج کو ماربھگایا ہے یا سرکاری فوجی خود ہی اپنی چوکیاں ،وردیاں ،اسلحہ اور یونٹ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔
عراقی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل قاسم الموساوی نے تل عفر میں لڑائی کی تصدیق کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ فوج نہیں بلکہ داعش کے دہشت گردوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ شمالی عراق کے تمام محاذوں پر گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران 297دہشت گرد مارے گئے ہیں۔تاہم ان کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
مذکورہ تصاویر کی کیپشنز میں کہا گیا ہے کہ داعش کے کمانڈر عبدالرحمان البیلاوی کی ہلاکت کے انتقام میں ان فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔فوجی ترجمان قاسم الموساوی نے ان تصاویر کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ وہ داعش کے زیرقبضہ علاقوں میں گرفتار عراقی فوجیوں کے قتل عام کی رپورٹس سے آگاہ ہیں۔
ان تصاویر میں نظر آنے والے زیادہ ترفوجی سادہ کپڑوں میں ملبوس ہیں اور بعض نے وردیوں کے اوپر ہی سادہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ انھوں نے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عجلت میں ایسا کیا تھا اور وہ داعش کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچنا چاہتے تھے۔
بعض تصاویر میں گرفتار فوجی داعش کے نقاب پوشوں سے جان بخشی کی استدعا کررہے ہیں اور بعض خوف زدہ نظر آرہے ہیں۔جنگجوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ان عراقی فوجیوں کی عمریں بیس ،پچیس سال کے درمیان معلوم ہوتی ہیں۔کیپشنوں میں تاریخ اور جگہ کا ذکر نہیں ہے کہ ان فوجیوں کو کب اور کہاں قتل کیا گیا ہے۔البتہ فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ صوبہ صلاح الدین میں فوجیوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔تکریت اسی صوبے کا دارالحکومت ہے۔
بغداد میں بم دھماکا
درایں اثناء دارالحکومت بغداد کے وسط میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں دس افراد ہلاک اور اکیس زخمی ہوگئے ہیں۔موصل اور تکریت پر داعش کے جنگجوؤں کے قبضے کے بعد دارالحکومت میں یہ پہلا بم دھماکا ہے۔
داعش نے اپنےدہشت گردوں کو بغداد کی جانب پیش قدمی کا حکم دے رکھا ہے لیکن ان کی شمالی عراق میں حالیہ کامیابیوں کے باوجود اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ بغداد پر بھی قبضہ کر لیں گے مگر پھر بھی اہل بغداد میں تشویش پائی جارہی ہے اور وہ خوف زدہ ہیں جبکہ شہر میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت نے بغداد کے ارد گرد دفاعی حصار کو مزید مضبوط بنا دیا ہے۔گذشتہ روز آیت اللہ علی سیستانی کی اپیل پر سیکڑوں شیعہ رضاکاروں نے دارالحکومت کی شاہراہوں پر مارچ کیا تھا اور وہ داعش کے دہشت گردوں کے مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں۔۔