ایران کی بری فوج کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمد رضا بوردستان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پانچ بریگیڈ فوج عراق کی سرحد سے چالیس کلو میٹر اندر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ انکا کہنا ہے کہ فوج کی عراق میں موجودگی کا مقصد دولت اسلامی ’’داعش‘‘ کی ایران کی جانب پیش قدمی کو روکنا ہے۔
ایرانی فوج کے مقرب نیوز ویب پورٹل ’’دف
اع پریس‘‘ نے بری فوج کے سربراہ کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی بری فوج مغربی عراق کی سرحد عبور کرنے کے بعد کئی کلومیٹر اندر کارروائیاں کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامی کی طرف سے خطرہ لاحق ہوا تو فوج مزید عراق کے اندر داخل ہوکر کارروائی کرے گی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ایرانی فوج پچھلے سال جولائی میں اس وقت عراق میں اتاری گئی تھی جب داعش کی جانب سے ایران کی طرف پیش قدمی کا خطرہ پیدا ہوا تھا۔
ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہماری مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے عراق کے اندر کسی بھی جگہ کارروائی کے لیے تیار ہے۔ اس وقت بھی ایران کی زمینی فوج چالیس کلومیٹر عراق کے اندر موجود ہے جہاں دہشت گردوں کےخلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
پچھلے کچھ مہینوں سے تواترکے ساتھ یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ ایران نے عراق کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کی ہے۔ ایران کے جنگی طیارے بھی عراق کی سرحدوں کے قریب مسلسل پروازیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیز تہران نے عراق کے مذہبی مراکز کربلا اور النجف کی سیکیورٹی کے لیے نیم سرکاری ملیشیا پاسیج اور پاسداران انقلاب کے سیکڑوں اہکار بھی بغداد روانہ کردیے ہیں۔
ادھر ایران کی ایک دوسری خبر رساں ایجنسی’’فارس‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا ملک داعش کے خلاف جنگ میں عراق کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ فارس کی رپورٹ کے مطابق داعشی جنگجوئوں کو عراق کے شہروں سے نکال باہر کرنے میں امریکا کی قیادت میں ہونے والے فوجی حملوں سے زیادہ ایران فوج کا کردار ہے۔
داعش کےخلاف جنگ میں عراقی حکومت کی مدد کی آڑ میں ایران عراق میں مبینہ طورپر مداخلت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالمی برادری بالخصوص امریکا اور عرب ملکوں نے عراق میں ایران کی بڑھتی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے