بغداد: عراق نے شمالی نینیوے علاقے میں ترک فوجیوں کی تعیناتی کو اپنے خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے آج اسے فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
وزیر اعظم حیدر العابدی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ترکی کا یہ اقدام عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے ۔’
اس سے قبل موصولہ اطلاعات کے مطابق ترکی نے باشیقہ قصبے کے قریب تقریباً 150 فوجی عراقی کرد فورسز کو تربیت دینے کے لیے تعینات کیے ہیں۔
موصل گذشتہ سال سے خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے قبضے میں ہے ۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘ترکی پڑوسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات کی عزت کرے اور فوراً عراقی حدود سے نکل جائے ۔’
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عراق میں خودمختار کرد علاقوں کے ساتھ ترکی کے اچھے تعلقات ہیں لیکن ترکی شامی کرد گروہوں کو مخالفین کی نظر سے دیکھتا ہے ۔
سقوط موصل دولت اسلامیہ کے ابھرنے میں ایک اہم موڑ تھا جس کے بعد سے عراقی حکومت کئی بار موصل پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کر چکی ہے ۔
رواں ہفتے میں پہلے برطانیہ کی دارالعوام نے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں کی منظوری دی اور اس کے بعد جرمنی کی پارلیمان نے بھی شدت پسند تنظیم کے خلاف اتحادیوں کی فوجی مدد کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں امریکہ کے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کا کہنا تھا کہ امریکہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے خصوصی فوجی دستے عراق میں تعینات کرے گا۔
کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا کہ عراقی حکومت کے مکمل تعاون کے ساتھ عراقی اور کرد پیشمرگہ کی مدد کے لیے امریکہ کے خصوصی دستے تعینات کیے جا رہے ہیں۔