کراچی: متحدہ عرب امارات کے بینکوں نے اپنے غیر ملکی کھاتے داروں کو نئی عالمی ٹرانسپیرنسی پالیسی کے نفاذ سے متعلق آگاہ کرنا شروع کردیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سرحد پار ٹیکس چوری کا مقابلہ کرنے اور ٹیکس کے معاملات میں بینکاری رازداری کو ختم کرنے کے لیے نافذ کی گئی ٹرانسپیرنسی پالیسی کے تحت غیر ملکی کھاتے داروں کو اپنے آبائی ممالک میں ادا کیے گئے ٹیکس کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نیا قانون ’کامن رپورٹنگ اسٹینڈرڈ‘ (سی آر ایس) کا حصہ ہے، جسے امریکا میں ’فارن اکاؤنٹ ٹیکس کمپلائنس ایکٹ‘ (فیٹکا) بھی کہا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ’دنیا بھر کے ممالک ٹیکس چوری میں ملوث اور بیرون ملک مقیم اپنے رہائشیوں کی نگرانی کے لیے طریقے تلاش کرتے ہیں، جبکہ ٹیکس چوری کی وجہ سے صرف امریکا کو سالانہ 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔‘
سی آر ایس کا مقصد جلا وطن یا انفرادی بینک اکاؤنٹس اور آبائی ملک سے باہر کمائی گئی آمدنی سے متعلق مختلف ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کو فروغ دینا ہے۔
عالمی ٹیکس کمپلائنس ریگولیشن کی تعمیل کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے مالیاتی ادارے اپنے کسٹمرز سے، یکم جنوری 2017 سے ٹیکس سے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں گے۔
گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق دبئی میں کام کرنے والے سب سے بڑے غیر ملکی بینک نے اپنے کھاتے داروں کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ’جنوری 2017 کے آغاز سے حکومت تمام بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے مطالبہ کرے گی کہ وہ اپنے کسٹمرز سے معلومات حاصل کریں تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آیا وہ ٹیکس کے مقاصد سے تو یہاں رہائش پذیر نہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت ’سی آر ایس‘ میں حصہ لینے والے ممالک میں ارجنٹینا، بیلجیئم، برمودا، برٹش ورجن آئی لینڈ، جمہوریہ چیک، فرانس، جرمنی، یونان، بھارت، آئرلینڈ، اٹلی، میکسیکو، پولینڈ، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، اسپین، سویڈن، برطانیہ، آسٹریلیا، بحرین، بہاماس، برازیل، کینیڈا، چین، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، اسرائیل، جاپان، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، پاناما، قطر، روس، سعودی عرب، سنگاپور، سوئٹزر لینڈ، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔