ایک معروف سائنسدان کا کہنا ہے کہ سائنس اور ریاضی میں کمزور افراد اکثر چکرا کر برے فیصلے کر جاتے ہیں۔برٹش سائنس ایسوسی ایشن کی سربراہ ڈیم اتھن ڈونلڈ کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک کے افراد کو ریاضی اور سائنس پڑھانے سے زیادہ عقلمند آبادی پیدا ہو گی۔پروفیسر ڈونلڈ اگلے ہفتے برٹش سائنس فیسٹیول سے اپنے خطاب میں برطانیہ کے تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلیوں پر زور دیں گی۔ وہ یہ دلیل دیں گی کہ طلباءکو کم عمری میں ہی کسی مخصوص مضمون کی طرف رجحان بڑھا کر وہی پڑھنے کو کہا جانا چاہیے۔’وہ اس بات پر زور دیں گی کہ شہریوں کو اپنی نجی زندگیوں کے بارے میں بہتر فیصلے کرنے کا اختیار دینے کی ضرورت ہے، چاہے وہ ویکسینیشن ہو، موبائل فونز ہوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بات ہو۔‘
پروفیسر ڈونلڈ کے خیال میں ان تمام چیزوں کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان سائنس میں دلچسپی لیں اور اسے سیکھیں۔
سائنس فیسٹول میں اپنے خطاب کے دوران وہ یہ باور کروائیں گی کہ سٹوڈنٹس کے ساتھ یہ مسئلہ کم عمری میں ہی شروع ہو جاتا ہے جب پرائمری لیول پر بہت کم اساتذہ سائنس پڑھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیکنڈری لیول پر کم اساتذہ سبجیکٹ سپیشلسٹ ہوتے ہیں۔
پروفیسر ڈونلڈ کا خیال ہے کہ ۱۴ برس کی عمر میں سٹوڈنٹس کو اپنے لیے مضمون منتخب کرنا، قوم کو ’بھیڑ بکریوں میں تقسیم کر دیتی ہے، سائنس کے لوگ الگ اور آرٹس کے لوگ الگ۔‘’اکثر ہم خود کو مخالف کیمپ میں پاتے ہیں، آج کل ہمارا کلچر ایسے بن چکا ہے کہ ہم سائنسدانوں کو باہر کی مخلوق تصور کرتے ہیں۔‘چودہ برس کی عمر میں سٹوڈنٹس کو اپنے لیے مضمون پسند کرنا، قوم کو ’بھیڑ بکریوں میں تقسیم کر دیتی ہے، سائنس کے لوگ اور آرٹس کے لوگ۔
’شیکسپئیر اور آسٹن کے بارے میں اگر ہماری معلومات صحیح نہیں تو ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے لیکن یہ کہنا ٹھیک لگتا ہے کہ میں سکول میں ریاضی کو بالکل برداشت نہیں کر سکتی تھی۔‘سولہ برس کی عمر سے زیادہ سٹوڈنٹس کے لیے صرف مخصوص مضامین پڑھنے کا سسٹم ختم کرنے کے مطالبات کو سپورٹ کرتے ہوئے پروفیسر ڈونلڈ کہیں گی کہ ’کئی اور ممالک کے بچوں کے پاس سکول کی ہر درجے کی کلاس میں ریاضی نہ پڑھنے کا آپشن موجود ہی نہیں۔‘یعنی انہیں تب تک ریاضی پڑھنا ہی ہوتی ہے جب تک وہ سکول ختم کر کے کالج نہ چلے جائیں۔پروفیسر ڈونلڈ جنس کی بنیاد پر فیصلے کرنے پر بھی تنقید کریں گی، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ بہت ہی کم لڑکیاں سائنس کی طرف راغب ہوتی ہیں۔
وہ اساتذہ اور والدین دونوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت پر زور دیں گی۔ وہ یہ کہیں گی کہ کلاس روم میں لڑکوں اور لڑکیوں کو مساوی وقت دیا جائے۔ ’کیونکہ سائنس سب کی زندگی کا اہم حصہ ہے، اسے خوفناک، گندا اور خطرناک سمجھنا بہت غیر مفید ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے محنت کرنی پڑے گی کہ والدین بنیادی حقائق سے چکرائیں یا کترائیں نہیں۔‘
انگلینڈ کے محکمہ تعلیم کے ترجمان بھی اس سے متفق ہیں کہ ریاضی اور سائنس روزمرہ زندگی کے لیے ’لازم‘ ہیں، چاہے آپ اپنا کاروبار کر رہے ہیں یا کہ بہتر موریگیج لینا چاہ رہے ہیں۔ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جی سی ایس سی کے ہزاروں طلبا و طالبات سائنس اور ریاضی میں بہتر پرفارم کر رہے ہیں۔ جب کہ ۲۰۱۰کے بعد سے اب تک اے لیول میں بھی ان مضامین کو پڑھنے والے سٹوڈنٹس کی تعداد ۳۸۰۰۰سے بڑھ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ سال متعارف کرائے گئے نئے قومی نصاب تعلیم میں پرائمری سکولوں میں ریاضی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اسی طرح اگلے سال جی سی ایس سی میں نئی سائنس بھی متعارف کروائی جائے گی۔