امریکہ اور برطانیہ میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد پر کی جانے والے ایک تحقیق کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ ورزش دل اور فالج کے مریضوں کے لیے دوا جتنی ہی موثر ہے۔
طبی سائنسدانوں کی اس تحقیق کے دوران تین لاکھ سے زیادہ مریضوں پر وزرش اور دوائیوں کے اثرات کا تقابلی جائزہ لیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ ورزش جہاں دل کی بیماری کی ادویات جتنی ہی کارگر ثابت ہوئی، وہیں فالج کے مریضوں پر اس کا اثر دوا سے زیادہ ہوا۔محققین کا کہنا ہے کہ ان نتائج کی بنیاد پر ورزش کو مریضوں کے نسخے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ تاہم ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ مریضوں کو دوا کے استعمال کے
ساتھ ساتھ ورزش بھی کرنی چاہیے اور ان میں سے صرف ایک کا استعمال صحیح نہیں۔فی زمانہ بہت کم بالغ افراد ضروری ورزش کرتے ہیں جب کہ ادویات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔تحقیق کے دوران لندن سکول آف اکنامکس، ہارورڈ میڈیکل سکول اور سٹینفرڈ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے محققین نے بطورِ علاج وزرش اور دوائیوں کے استعمال کے تقابلی جائزے کے بارے میں کی گئی طبی تحقیقات کو تلاش کیا۔
انہوں نے اپنے تجزیے کے دوران ۳۰۵؍ایسے تجربات کی نشاندہی کی جن میں دل کی بیماری، فالج کے مریضوں کی بحالی، دل کے دورے اور ذیابیطس کے مریضوں پر کام کیا گیا تھا۔جب انہوں نے اس تمام ڈیٹا کا مجموعی طور پر جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ شرحِ اموات کے لحاظ سے ورزش اور دوا کے کردار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔تاہم برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی سینیئر نرس ایمی ٹامسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ ورزش سے صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ یہ دوا کے برابر یا اس سے بہتر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’دل کی بیماریوں میں ادویات کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے اور دل کے مریضوں کو تجویز کردہ ادویات استعمال کرتی رہنی چاہئیں: ’اگر آپ کو دل کی بیماری ہے یا ہونے کا خدشہ ہے، تو اپنے ڈاکٹر سے پوچھیں کہ علاج میں ورزش کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔‘سٹروک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر پیٹر کولمین کے مطابق دوا کے ساتھ ساتھ ورزش کا کردار انتہائی اہم ہے اور اس پر مزید تحقیق ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’باقاعدہ ورزش کرنے، متوازن غذا کھانے اور سگریٹ نوشی ترک کر کے لوگ فالج کا خطرہ کم کر سکتے ہیں۔‘