علی گڑھ(نامہ نگار)جامعہ اردو علی گڑھ کے زیرِ اہتمام’’ اردو اور علامہ ا قبال‘‘ موضوع پر منعقدہ قومی سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز فکشن نگار پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار نے کہا کہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ذکر کے بغیر اردو زبان و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ علامہ ا قبال ایک سچے ہندوستانی تھے جس کا ثبوت ان کے کلام سے ملتا ہے۔
پروفیسرقاضی عبدالستار نے کہا کہ علامہ اقبال اردو کے سپاہی تھے ا ور انہ
وں نے اردو شاعری میںاسلامی فلسفہ پیش کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے توسط سے سماج میں انقلابی سوچ پیدا کی اور شاہین کو علامت بناکر مسلم قوم میں نئی بیداری کو جِلا بخشی۔
پروگرام کے مہمانِ خصوصی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں سینئرا ستاد پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ علامہ ا قبال بیک وقت شاعر، ادیب، دانشور اور فلسفی تھے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کا کلام اسلامی فکر کا حامل ہے اور انہوں نے اپنی شاعری کے توسط سے مسلمانوں میں نئی روحِ حیات پھونکی۔ پروفیسر چھتاری نے کہا کہ علامہ ا قبال کو سرسید احمد خاں سے خصوصی عقیدت تھی جس کا نشان سرسید کی لوحِ تربت پرواضح طور پر نظر آتا ہے۔پروگرام کے ا عزازی مہمان مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سینئرپروفیسر اور ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ موجودہ عہد میں علامہ اقبال بر صغیر ہندوپاک کا اردو و فارسی کا عظیم ترین شاعر ہے ، وہ ہماری مشترکہ میراث ہے۔انہوں نے کہا کہ علی گڑھ سے اقبال کو خصوصی نسبت تھی ۔انہوں نے کہا کہ سر سید سے وا بستگی نے اقبال کے لئے سرزمینِ علی گڑھ اور سر زمینِ پنجاب کی دوریوں کو مٹا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں علامہ اقبال کے استاد مولانا سید شاہ میر حسن کو جب سرسید کے انتقال کی خبر تار سے پہنچی تو انہوں نے اپنے ۲۱سالہ شاگرد اقبال سے سرسید کی وفات پر مادہ تاریخ نکالنے کو کہااور اسی وقت اقبال نے ایک دوکان پر بیٹھ کر تاریخ مادہ نکالااور مولانا کے فرزند سید ذکی شاہ کو پیش کیا جو آج بھی سرسید کے مزار پر کندہ ہے۔پروگرام کے اعزازی مہمان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ا فسر رابطۂ عامّہ ڈاکٹر راحت ابرار نے کہا کہ اقبال سرسید کے کارناموں سے بے حد متاثر تھے۔ قوم کی فکر میں سرسید احمد خاں بھی سرگرداں تھے اور یہی غم اقبال کو بھی کھائے جا رہا تھا۔اقبال نے سر سید کی لوح تربت کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاشرتی نظام کا ضابطۂ حیات تصور کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقبال اردو کا واحد شاعر ہے جس نے اپنے کلام اور پیام کے ذریعہ نئی نسل کے فکر و نظر میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔اقبال کی ایم اے او کالج سے گہری عقیدت اور وابستگی کی بنا پر انہیں ۱۹۰۷ء میں شعبۂ فلسفہ کی پروفیسر شپ بھی پیش کی گئی۔ڈاکٹر ابرار نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے ۲۴؍نومبر ۱۹۲۸ء کو انہیں اپنی لائف ممبرشپ کے اعزاز سے نوازا اور۲۲؍دسمبر ۱۹۳۴ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سالانہ تقسیم اسناد کے جلسہ میں نواب محمد اسماعیل خاں کی وائس چانسلر شپ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفرازکیاگیا۔
مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے جامعہ اردو علی گڑھ کے او۔ایس ۔ڈی فرحت علی خاںنے کہا کہ علامہ اقبال ہماری تہذیب و ثقافت کے امین ہیں اور وہ دنیا کے پہلے شاعر ہیں جن کا کلام زمین ہی نہیں چاند پر بھی پڑھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ راکیش شرما نے چاند سے پیغام دیا تھا ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘۔ فرحت علی نے کہا کہ علامہ ا قبال کو ہندوستان اور اس کے مناظر فطرت سے خصوصی لگاؤ تھا جو ان کی شاعری میں نظرا ٓتا ہے۔ وہ اسلام کے عظیم مبلغ اور فلسفی تھے۔ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال محض شاعر ہی نہیں بلکہ اسلامی دانشور اور مفکر بھی تھے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں ان کی قابلِ قدر خدمات اردو کی تاریخ کا روشن باب ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
نظامت کے فرائض مصاعد قدوائی نے انجام دئے۔اس موقعہ پر پروفیسر قاضی عبدالستار نے مصاعد قدوائی کے افسانوی و شعری مجموعہ ’’ تمازت‘‘ کا اجراء بھی کیا۔پروگرام میںجامعہ اردو علی گڑھ کی جانب سے ڈائنامک فٹنیس جم کے ڈائرکٹر اور جامعہ اردو علی گڑھ کے سابق طالب علم مسٹر معین الدین کو ’’ ٹائگر آف نارتھ انڈیا‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ مسٹر معین الدین کو مذکورہ خطاب کے علاوہ ایک لاکھ روپیہ کا چیک،ایک یادگاری نشان، شال اور توصیفی سند پیش کی گئی۔