لکھنؤ(نامہ نگار)ریاست کی بجلی شرح میں کمی کرنے کے طریقوں میں عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ریگولیٹری کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ سابقہ میں کئے گئے وعدے کے مطابق ریاستی توانائی صارفین بورڈ کے ذریعے تجاویز کو اختیار کیا جائے تاکہ عوام کو راحت مل سکے۔
ریاستی توانائی صارفین بورڈ کے صدر نے ریگولیٹری بورڈ کے کمیشن کے ذریعے جو یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس مرتبہ بجلی کی شرح کمپنیوں کے پرفارمنس کی بنیاد پر تعین کی جائیں گی۔ یہ عوام کے مفاد میں کیا جانے والا فیصلہ ثابت ہوگا۔ صارفین بورڈ کے صدر اودھیش کمار ورما نے کہا ہے کہ جہاں تک کمیشن کی یہ تجویز ہے کہ روسٹر سے زیادہ بجلی فراہم کرنے پر مذکورہ علاقہ کے عوام کو پانچ پوائنٹ صفر فیصد کی شرح سے زیادہ ادائیگی کرنی ہوگی درست نہیں۔ کیونکہ کمیشن کو یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ اگر کسی بھی علاقہ میں روسٹر سے کم بجلی فراہم کی جائیگی تو اس علاقہ میں صارفین کو کتنے فیصد کا فائدہ دیا جائے گا۔
کمیشن نے اس مسئلے پر غور نہیں کیا کہ ریاست میں بجلی کی فراہمی اور صارفین کی ضرورت کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں روسٹر کے مطابق بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں زیادہ فراہمی کی بات کرنا بے معنی ہوگا۔انہوںنے کہا کہ موجودہ وقت میں اہم شخصیات والے اضلاع میں چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ کے ذریعے ایک عرضی میں یہ فیصلہ دیا جاچکا ہے کہ یہ بندوبست غیر جمہوری ہے اور اس معاملے پر عدالت کی خلاف ورزی کی کارروائی زیر غور ہے۔ ایسے حالات میں غیر جمہوری بندوبست کو زیادہ شرح کی بنیاد پر کیسے قانونی بنایا جاسکتا ہے۔
توانائی قوانین کے مطابق تمام اضلاع کو برابری کی بنیاد پر بجلی کی فراہمی کی جانی چاہئے۔ اور اس کی ادائیگی بھی برابری کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اگر سپلائی میں کہیں خامی ہے تو دو ہزار تین قانون کے تحت برابری قائم کی جانی چاہئے۔ لیکن زیادہ بجلی زیادہ قیمت کا بندوبست کسی بھی طرح سے قانونی نہیں ہوسکتا ہے۔