ہر طرف آلائشیں، سڑکوں پر بہتا خون، فضا میں تازہ کٹے گوشت کی بساند، یہ جنگ زدہ بغداد کا منظر نہیں، بلکہ عید الاضحیٰ کے پہلے پہلے دن کسی بھی پاکستانی شہر کا ہوتا ہے، جسے عام طور پر بکرا عید بھی کہا جاتا ہے۔
یہ وہ دن ہے جب ہر گائے اور بکرا جاگتا ہے تو اس کے منہ سے پہلا لفظ یہی نکلتا ہے، “او بھینس!”۔
یہ وہ دن ہے جب پاکستانی بچوں کو چھریوں کے ایکشن کے بعد بہتا خون دیکھنے کے لیے ہالی وڈ فلم دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ یہ ان کے سامنے ہی ہو جاتا ہے۔
یہ وہ دن ہے جب کئی پاکستانی اپنے مردہ جانوروں کی کھالیں بڑی سیاسی جماعتوں کو بلا جھجھک دے دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنا حشر اپنے بکرے جیسا نہیں دیکھنا چاہتے۔
مگر بکرا عید کے اثرات تو ایک ہفتہ پہلے سے ہی شروع ہوجاتے ہیں جب اس کی تیاریاں شروع ہوتی ہیں۔
یہ تب ہوتا ہے جب آپ ایک دن کام سے گھر واپس آتے ہیں، تو گلی میں داخل ہوتے ہی ایسی بدبو آپ کا استقبال کرتی ہے جو کسی ٹرک اڈے کے غسل خانے سے مخصوص ہوتی ہے۔ آپ تنگ آ کر پوچھتے ہیں، “آج کس نے لوبیا اور چھولے کھائے تھے؟”
اور تب ہی آپ کے کانوں میں بکرے کی با ہا ہا سنائی دیتی ہے تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ بدبو لوبیا چھولے کی وجہ سے نہیں بلکہ بکروں کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کے کئی شہروں میں ہر گلی میں کم از کم ایک خالی گھر یا پلاٹ ضرور ہوتا ہے جو اس کے مالک کے زیرِ انتظام رہتا ہے۔ بکرا عید کے دن یہ گھر یا پلاٹ گائے بکروں کے لیے ہالی ڈے ان ہوٹل بن جاتا ہے اور عام طور پر غریب یا متوسط طبقے کا پلاٹ مالک لوگوں کے گائے اور بکرے سنبھال کر کچھ اضافی پیسے کما لیتا ہے۔
بکروں کی اس بو کو سونگھنے اور ان کی اجتماعی دہائیاں سننے کے بعد آپ کے ذہن میں سب سے پہلے دو خیالات آتے ہیں: “مجھے اپنی کھڑکی بند کر لینی چاہیے” اور “میں تو بکرا لینا بھول ہی گیا۔”
بکرا خریدنا کمزور دل لوگوں کے بس کی بات نہیں
اگلی صبح آپ اپنا بکرا خریدنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ شکر ہے کہ 2015 ہے اور آپ کے پاس قربانی کرنے کے لیے کئی آسان طریقے موجود ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن جیسے ادارے کم قیمت میں آپ کی پسند کا بکرا ذبح کر کے آپ کو گوشت کا حصہ فراہم کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد میٹ ون جیسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جو یہی کام تھوڑے زیادہ پیسوں میں کرتی ہیں۔
اگر آپ چاہیں تو میٹ ون آپ کو آپ کے جانور کی تمام آلائشیں تک واپس کر سکتا ہے۔ میٹ ون کی خدمات اور گوشت کا معیار نہایت عمدہ ہے اور اگر کمپنی کے بانیوں کا نام جان لیں تو آپ یہ بھی جان لیں گے کہ ایسا کیوں ہے۔
آپ جانتے ہی ہوں گے کہ میٹ ون کے مالکان سابق پاکستانی انٹرنیشنل کرکٹرز سعید انور اور انضمام الحق ہیں۔ مجھے آپ کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن مجھا پورا یقین ہے کہ یہ شخص اپنے گوشت کو پہچانتا ہے:
پر اگر آپ بکرا خود خریدنا چاہتے ہیں، تو آپ اس شخص سے رابطہ کر سکتے ہیں جو عید الاضحیٰ کے دنوں میں گلیوں کے کونوں میں کچھ منافع کمانے کے لیے بکروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ورنہ جو لوگ تھوڑا سستا جانور خریدنا چایں، وہ عام طور پر شہر کے باہر قائم بکرا منڈی جا سکتے ہیں۔
اس طرح کی کسی بکرا منڈی میں جانا ایک دلچسپ تجربہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ رات کے وقت جائیں جب مویشی فیشن شو میں جلوے بکھیرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔ جی ہاں، ایسا واقعی ہوتا ہے۔
اکیلے بکرا منڈی جانا صحیح نہیں ہوتا کیونکہ کیش اٹھائے ہوئے خریداروں سے لوٹ مار عام ہے، جبکہ چالاک بیوپاری بھی آپ کو لوٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔
بکرا منڈی کے اپنے واحد دورے پر میں اپنے ایک انکل کو ساتھ لے گیا تھا جو صحتمند بکروں کی خصوصیات اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر گھرانے میں ایک نہ ایک ایسے انکل ضرور موجود ہوتے ہیں جن کی بکروں کے بارے میں معلومات عجیب و غریب حد تک زیادہ ہوتی ہیں۔
“یہ دیکھو اس کے دانت بہت اچھے ہیں۔”
“اس کے ہونٹ بہت سرخ ہیں۔ بہت خوبصورت بکرا ہے۔”
(بکرے کو پیچھے سے تھپتھپانے کے بعد) “اس بکرے کی ران کافی سخت ہے۔”
اور آپ یہ کہنے کی چاہ دل میں ہی دبا لیتے ہیں کہ انکل آپ غلط منڈی میں ہیں۔
بکرا عید کے مرکزی کردار: درزی، قصائی، اور امام
بکرا خرید لینے اور قصائی کی بکنگ کروا لینے کے بعد آپ عید سے ایک دن پہلے اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے ہیں۔ لیکن آپ کو نہیں معلوم کہ ایک بحران جنم لے رہا ہے۔ یہ وہ بحران ہے جس کا سامنا بہن، امی، گرل فرینڈ، یا بیوی والے ہر پاکستانی شخص نے کیا ہے۔
یہ درزی بحران ہے۔
عید کے دنوں میں پاکستان کا ہر درزی اتنا کام اکٹھا کر لیتا ہے جو کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ ویسے تو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا عید کا جوڑا عید سے ایک ہفتہ قبل تیار ہوجائے تاکہ وہ اس میں تبدیلیاں کروا سکیں، کیونکہ ہر عورت جانتی ہے کہ مصروف درزی کبھی بھی پہلی بار میں درست کپڑا نہیں سی پاتا۔
جب بھی گاہک درزی سے اپنے کپڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو درزی کا جواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے: کل۔ آخر کار پورے ہفتے کے بعد عید سے ایک رات پہلے وہ کل آ ہی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درزی پیسوں کے وقت کبھی بھی کل نہیں کہتے، اس وقت ان کا مطالبہ صرف “آج” ہوتا ہے۔
اور اگر عید سے صرف ایک رات قبل درزی کپڑے خراب کر دے، تو آپ اب کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ درزی پر جتنا چاہیں غصہ اتار لیں مگر درزی کے چہرے سے کھسیانی ہنسی نہیں اتار سکتے۔
اب لڑکیوں کے پاس صرف ایک چارہ بچتا ہے: کھادی۔
عید کی رات پاکستان میں کھادی کا ہر اسٹور خواتین سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہوتا ہے، جو ایک اچھی قمیض کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ اگر ایک آخری بچ جانے والے جوڑے پر دو خریداروں کی نظر پڑ جائے تو پھر ان کی جنگ دیکھنے لائق ہوتی ہے۔
اگر آپ چاند رات پر باہر ہیں تو آدھی رات سے قبل گھر واپس آ جانا چاہیے۔ جب گھڑی 12 بجاتی ہے اور عید کا دن شروع ہوتا ہے تو کئی افراد ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جس کی زد میں کئی بار عام لوگ بھی آجاتے ہین۔
اگلی صبح آپ عید کی نماز کے لیے تڑکے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ نیم غنودگی کی حالت میں نماز شروع ہونے کا انتظار کرتے ہوئے آپ سوچتے ہیں کہ امام صاحب دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالت پر اس قدر طویل خطبہ آج ہی کیوں دے ہے ہیں۔ اس کے بعد وہ فوراً اسلام کے سنہرے دور کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔
اور پھر جیسے ہی اذان دی جاتی ہے تو آپ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
امام فوراً عید کی خصوصی نماز کا طریقہ کار بتاتے ہیں جو کہ نیم غنودگی مں آپ کو تھوڑا ہی سمجھ آتا ہے۔ جب نماز شروع ہوتی ہے تو آپ کنکھیوں سے اپنے ساتھ والے لوگوں کو دیکھتے ہیں تاکہ ان کی نقل ادا کی جاسکے۔
آپ کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ شخص بھی کھادی سے رات گئے واپس آیا ہوتا ہے اور آپ ہی کی طرح نیند میں ہے۔
پارکنگ لاٹ میں عید کی نماز نہیں پڑھی تو کچھ نہیں کیا۔
یہ سب کچھ صحیح چلتا ہے جب تک کہ کوئی شخص غلطی سے ہاتھ اس وقت باندھ نہ لے جب کھلے چھوڑ دینے تھے۔ یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کو کنکھیوں سے دیکھنے والے کئی لوگ اس کی نقل کر بیٹھتے ہیں اور وہ لوگ بھی پریشان ہوجاتے ہیں جنہوں نے درست ادائیگی کی ہوتی ہے۔
کبھی کبھی امام صاحب اچھے موڈ میں ہوتے ہیں اور ایک چھوٹی سورت کی قرآت کرتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی تو وہ پورا قرآن پڑھ ڈالنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ اتنے دیر کھڑے رہنے سے آپ کے ٹخنوں میں کھجلی ہونے لگتی ہے اور ساتھ میں کھڑے باریش آدمی کی نظروں سے بچا کر اپنے پیر کھجانا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔
عید کے دن جلدی آنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ آپ کو نماز باہر سڑک پر ادا کرنے کے بجائے مسجد کے اندر جگہ مل جاتی ہے، پر اگر مسجد کے قالین اسلام کے سنہرے دور سے اب تک دھوئے نہ گئے ہوں، تو یہ کبھی کبھی ناگوار تجربہ بھی ہوسکتا ہے۔
نماز کے بعد ہر کسی سے تین دفعہ گلے ملا جاتا ہے۔ صبح صبح تو یہ کام آسان ہوتا ہے مگر گرم دن کے چڑھنے پر آپ سوچتے ہیں کہ دروازے پر مہمانوں کے لیے باڈی اسپرے رکھ دینا چاہیے۔
اگر آپ خوش قسمت ہیں تو آپ کا قصائی مقررہ وقت پر آپ کے دروازے پر پہنچ جائے گا۔
جب بھی میں پاکستان میں قربانی کے طریقہء کار پر اعتراض کرتا ہوں تو مجھ سے اگلا سوال پوچھا جاتا ہے کہ آیا میں سبزی خور ہوں یا میں سارا سال گوشت نہیں کھاتا۔ ایسی بات نہیں ہے۔ مجھے اعتراض گوشت کھانے پر نہیں بلکہ اس طریقے پر ہے جس سے عید کے روز گوشت حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ شخص ایکشن کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق جانوروں کو جسمانی و نفسیاتی تکلیف پہنچائے بغیر ذبح کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ دونوں ہی کام انجام دیے جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ جانوروں کو ایک دوسرے سے چھپا کر ذبح کیا جائے تاکہ ان میں خوف نہ بیٹھ جائے، اس کے باوجود زیادہ تر جانور اپنے ساتھیوں کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسے کہ وہ کسی دہشتگرد گروہ کے ہاتھوں قیدی ہوں۔
عید کئی لوگوں کے لیے کاروبار کا موقع ہوتا ہے اور پارٹ ٹائم قصائیوں کی بھی چاندی ہوجاتی ہے جنہیں گوشت بنانے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ پارٹ ٹائم قصائی نہایت ظالم ہوتے ہیں اور جانور کی تکلیف دس گنا بڑھا دیتے ہیں۔ کچھ جانور چند سیکنڈ میں دم توڑ دینے کے بجائے کئی منٹوں تک تڑپتے رہے ہیں، صرف ان ناتجربہ کار قصائیوں کی وجہ سے۔
خاص طور پر تو پاکستان میں اونٹ کی قربانی کا طریقہ کار تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اونٹ کی گردن میں ایک زخم لگایا جاتا ہے اور جانور اپنی آدھی کٹی ہوئی گردن لے کر چیختا پھرتا ہے۔
اونٹ کی قربانی کی یہی کہانی ایک دفعہ میں نے عید کی دعوت میں سنائی تھی تو لوگ کھانا کھائے بغیر اٹھ گئے تھے۔
ویسے ایک سوال کے بغیر تو عید مکمل ہی نہیں ہوتی، “آپ نے عید کی نماز کہاں پڑھی؟”