نزہت جہاں
عید قرباں اسلام کا دوسرا عظیم تہوار ہے جو اپنی اہمیت ،فضیلت ،معنویت ،روحا نیت ، متاع بیش بہا سے بے نیازی ، جان و مال کی قربانی اور انسانی قلوب کی پا کیزگی کے حوالے سے منفرد شنا خت اور خصوصیات کا حامل ہے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عمل ایک طرف قرب خداوندی ،ر©ضائے الہی اور پروردگار عالم کی خوشنودی کا با عث ہے تودوسری طرف ہر قدم پر سر فروشی ،قربا نی ،جاں نثاری ،طاعت وعبودیت ،عا جزی و انکساری ،تسلیم و رضا ،صدق وصفا اور صبر وشکر سے لبریز ہونے کے پیغام سے سرشار ہے۔قربا نی ایک ایسا عمل ہے جو امت مسلمہ کی طرح سابقہ امتوں کی متنوع عبادات کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ،البتہ طریقہ کار اور قبولیت کے مدار و شرائط مختلف رہے ہیں ،یہود ونصا ری کے ہاں بھی قربا نی کا تصور ملتا ہے ،زرتشتوں اورایرا نیوں کے یہاں بھی فلسفہ قربا نی موجود ہے ،اور ہندوستان کے دیگر مذا ہب کے یہاں بھی قربا نی کا عملی اظہار ہو تا ہے ۔اور اسے مختلف الفاظ کا لباس پہنا کے کسی نے نروان،،تو کسی نے بلیدان،،اور کسی نے بھینٹ ،،سے مو سوم کیا ہے مذہب اسلام میں اسے قربانی اور نحر کے سا تھ مختص کیا گیا ہے ۔
احادیث مبارکہ میں قربانی کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ابن آدم کا نحر ( یعنی قربانی کا دن)ایسا کوئی عمل نہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک خوں بہانے ( یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب ہو،اور قربانی کا جانور قیامت کے دن سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ہو کر) آئیگا اور قربانی کا خون زمین گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی رضا اور قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، پس اے اللہ کے بندو:دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو۔
مسلمانوں کی زندگی میں عید الاضحی ایک یادگار دن ہے اور اس سے زیادہ قدیم کوئی دوسری عید یا یادگار دن نہیں ہے،قدیم اس قدر کے دور رسول سے ہزار سال پہلے اللہ کے پیغمبر نے اپنے بیٹے سے کہا تھا:” میں خواب میں اپنے آپ کو تمہیں ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اب تم بتا¶ کہ تمہاری رائے کیا ہے، بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشااللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔اللہ تعالی نے قربانی قبول فرمالی لیکن قربانی لی نہیں، بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادگی پورے عزم کے ساتھ سامنے آگئی۔اور اس نازک مقام پر اللہ تعالی کی محبت خون کی محبت پر غالب آگئی۔
پوری دنیا کے سامنے آج اسی قربانی کی عظیم تاریخ ہے، حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ تروتازہ ہے ۔نہ جانے کتنی قربا نیاں عمل میں آئیں گی اورکتنے قسم کے جا نور قربا ن ہو ں گے ۔عید قرباں کا یہ موقع ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کا دعوت فکر دیتا ہے ،کہ کیا ہماری قربان نیاں صرف خدا ئی فرمان کی تعمیل میں ایک علا متی قربا نی ہے ؟ کیا جانوروں کو قربان کر تے وقت ہمارے قلوب میں اخلاص وللہیت کی قندیلیں روشن رہتی ہیں ؟ کیا ہمارے ذہنوں میں حقیقت کا یہ چراغ ضوفشاں ہے کہ جانوروں کی قربانی در اصل ہما ری جا نوں کی جگہ ہے ،بعض مصلحتوں اور حکمتوں کی بنیاد پر جا نوروں کی قربا نی کو انسانی جانوں کا متبادل قرار دیا گیاہے ،خدا کو انسان سے وہی قربا نی مقصود ہے جسکی تفصیل قرآن کریم میں ہے ”تم کہہ دو کہ میری نماز ،میری قربانی ،میرا جینا اورمرنا اﷲ ہی کیلئے ہے،جوسارے جہان کا پالنہار ہے“ ،(سورةالانعام)۔ایک سچے مسلمان کی ایما نی وروحانی معراج یہی ہے کہ اپنی حیات کے ہر گوشے ،اپنی جان ،اپنی آل واولاد ،قیمتی متاع حیات ،اپنامال ،مادی اور غیر مادی ،محسوس اور غیر محسوس اشیاءکو راہ خدا میں بلا تذبذب قربان کردے ،اپنی خواہشات ،مرضیات ،تر جیحات،ذاتی پسند و نا پسند ،آرائش و آرام ،عہدے اور منصب کو را ہ خدا میں لٹانے کا حوصلہ اور جذبہ رکھے ،حضرت ابراہیم ؑکی قربا نی انہیں عنا صر کی آمیزش کا حسین استعارہ ہے ۔برسوں کی ما نگی ہو ئی دعا¶ں کے ثمرہ اپنے لخت جگر حضرت اسمعیل ؑکوراہ خدا میں قربان کر نے سے نہ دنیاوی رکا وٹوں نے روکا ،نہ بشری تقا ضے اور مطا لبے اس راہ میں حائل ہوئے ،نہ ماں کی ممتا اورشفقت پدری اس عمل کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی ،نہ اندیشہ ہائے فردا کا خیال دل میںپیدا ہوا ، اور نہ ہی کسی تزلزل کا آپ پر اثر ہوا ،حکم خدا وندی پاتے ہی اس کو انجام دینے کیلئے پیکر صبرو رضا اورخوگر صدق وصفا حضرت اسمعیل ؑ کو قبلہ رو زمین پر لٹا دیا اور جذبات اطاعت الہی سے سر شار ہوکر انکے گلے پر چھری چلادی ،آسمان و زمین لرزگئے ،کا ئنات متزلزل ہو گئی ،اور فرشتے بے چین ہو اٹھے ،رحمت الہی جوش میں آئی ،چھری حکم الہی پا کر کند ہو گئی ،اﷲ نے حضرت ابراہیم ؑ کے جذبہ صا دق اوراخلا ص کا مل کا انعام یوں دیا کہ امام الانبیاءمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان نسل میں پیدا کیا اور ان کی امت میں ہر صاحب استطاعت اور مالک نصاب پر قیامت تک کے لئے اس ادائے خلیل کو اتباع ایمانی قرار دیکر اسلامی شعار کا درجہ عطا کردیا ۔
امت مسلمہ سے آج انہیںجدبہ فداکارانہ اور بے لوث عشق کے ساتھ جانوروں کی قر با نی مطلوب ہے لیکن افسوس صدافسو س کہ مادیت و صا رفیت کے اس دور میں مسلمانوں نے اسباب و ذرائع کو مقا صد پر فو قیت دے رکھی ہے ،دنیا وی مال ومتاع ،مادہ پرستی ،جاہ و منصب ،عیش و آرام ،خواہشات کی اتباع ،چند روز ہ زندگیوں کی آسا نیاں ،اور اسکی خوشیاں ہی ہم مسلمانوں کی نظروں میں مقصود حیات بن کر رہ گئی ہے،ایسے میں اگر ہم سے حقیقی قربا نی کا مطالبہ ہوتا ہے ،تو ہما رے قدم لرزنے لگتے ہیں ،قلوب پر رعشہ کی کیفیت طاری ہو جا تی ہے دنیا وی عیش وآرام اورلذت ونشاط کی خا طر جانی ومالی قربانی سے راہ فرار اختیار کرنا نہ دنیا وی زندگی کی فلاح کا ضامن ہے اور نہ ہی اخروی حیات میں کامیاب ہونے کی دلیل ہے ۔کا میاب مومن وہی ہے جس کا مطمح نظر اپنی جان ومال کو مر ضیات الہی پر قربان کر دینا ہو ، قربانی خواہ جان کی ہو یا مال کی ،نفس کی ہو کہ خواہشا ت کی ،وقت کی ہو کہ چا ہت کی یہ ایک مشکل امر ہے ۔جس کا انجام دینا آسان نہیں ،قربانی قوموں کے عروج و زوال کی ضامن ہے ،حیات فانی کو حیات جا ودانی میں تبدیل کرنے کا اشا رہ ہے ،قربا نی سرا پا اطاعت ،ایثار اور اظہار محبت کی انتہا ہے ۔ قربا نی کو کسی بھی قوم کی ارتقاءوارتفاع میں راہ حیات خیال کیا گیا ہے ،قربا نی مذہبی وملی تشخص کی علا مت ہے ،قربا نی باپ اوربیٹے کی محبت و اتفاق رائے کا حسین درس دیتی ہے ،قربا نی کر نیوالا نوازشات الہی کا مستحق ہو تا ہے ،قربا نی سے سنت ابراہیمی کی تجدید ہو تی ہے ،قربا نی امیدوں کے ساتھ جانفشانیوں کا حوصلہ عطا کرتی ہے ،قربا نی اسلامی تہذیب وتمدن ا ورروایت ثقافت شناخت ہے،عید قربا ں کے موقع پر یقینا انسانی جان کی قربانی مطلوب نہیں ہے ،لیکن ہر ایمانی قلوب میں ان تمنا¶ں کی انگڑا ئیاں ضرور مچلنی چا ہئے ۔
آئئے سنت ابراہیمی کی ادا ئیگی کے حسین موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ راہ خدا میں ہر طرح کی قربا نی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں گے ،اپنی انا اور غرور کوخاک میں ملادیں گے ۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خیال کریں گے ۔ ملت اسلامیہ کی سربلندی کے لئے ہمہ وقت مستعد و تیار رہیں گے ۔ عالم اسلام پر کسی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ جب جہاں جس وقت جس حال میں جیسی قربانی طلب کی جائے گے ہم بلا تذبذب وہچکچاہٹ پیش کرنے کے لئے خوشی خوشی آمادہ رہیں گے ۔(ےو اےن اےن)
nuzhatjahanm@gmail.com