لوانڈا ۔ عیسائی اکثریت کے حامل افریقی ملک انگولا نے مسلمان کی انگولا میں موجودگی کو نظرانداز اور دوسرے ملکوں سے آمد کو ناپسند کرتے ہوئے انگولا میں تمام مساجد کی تالا بندی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
انگولا کی وزیر ثقا فت نے اس امر کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” وزارت انصاف اور اسانی حقوق نے اسلام کی پریکٹس کو قانونی جواز دینے کی منظوری نہیں دی ہے، اس لیے ملک میں تمام مساجد کو تاحکم ثانی بند کیا جاتا ہے۔”
واضح رہے ایک کروڑ ستر لاکھ کی آبادی پر مشتمل انگولا کی غالب اکثریت مسیحی عقائد کی حامل ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد سرکاری طور پر تین فیصد بتائی جاتی ہے۔
اپنے اس فیصلے کی بنیاد پر انگولا میانمار کے دنیا کا دوسرا ملک ہے جس نے مذ ہبی اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کو بطور ایک قوم اپنے ہاں برداشت نہ کرنے کے لیے حکوتی سطح پر اقدامات کا آغاز کیا ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ انسانی و مذہبی حقوق کو تسلیم کرنے والے بعض مغربی ممالک میں بھی مساجد اور ان کے میناروں کو اسلامی شناخت بن جانے کی وجہ سے مسمار کیے جانے کی پذیرائی کی جا رہی ہے۔
انگولا سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پچھلے ماہ اکتوبر کے شروع میں ویانا زانگو نامی شہر میں ایک دن میونسپلٹی کے اہلکاروں نے اچانک مساجد کے مینار مسمار کرنا شروع کر دیے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں سے اجازت لی گئی نہ انہیں پیشگی بتایا گیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ اس بارے می انگولا کی انتظامیہ نے 3 اکتوبر کو فیصلہ کیا تھا۔ اس موقع پر گورنر نے اعلان کیا کہ” انگولا حکومت مسلمانوں کی اپنے ملک آمد نہیں چاہتی، نہ ہی مسجدوں کو قانونی حیثیت دینا چاہتی ہے۔”
اب ماہ نومبر کے اواخر میں انگولا کی وزیر ثقافت نے اس امر کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے کہ حکومت کو انگولا میں مساجد قبول نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ محض ایک طبقہ فکر ہے۔
مذاہب سے متعلق آزادیوں کے بارے میں ایک 2008 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں مسلمانوں کو انگولا میں اقلیت ظاہر کیا گیا ہے۔ جن میں افریقی النسل کے علاوہ لبنانی پس منظر رکھنے والے بھی شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی انگولا میں موجودگی کا نوٹس لیا گیا جو زیادہ تر بڑے شہروں کے رہائیشی ہیں ۔ ان مسلمانوں نے مساجد میں قرآنی تعلیمات کا بھی اس سے پہلے اہتمام کر رکھا تھا۔ نیز عربی زبا ن سکھانے کا بھی انتظام تھا۔