اڑ رہا ہے جو دھواں چاروں طرف
ہے کہاں اب آسماں چاروں طرف
شہر میں وارد ہوا مَیں جس گھڑی
کھل رہیں ہیں کھڑکیاں چاروں طرف
گوشئہ دل میں چھپا ہے وہ کہیں
ڈھونڈتا ہے تُو کہاں چاروں طرف
بغض، نفرت اور تشدد چھوڑیے
امن سے قائم جہاں چاروں طرف
پیاس اصغرؔ کی بجھانے کے لیے
ہے یہاں دریا رواں چاروں طرف
اصغرؔ شمیم