ودودرا کے ایک اسکول میں زیر تعلیم5 طلبا کی معطلی سے گجرات کے والدین سہم کر رہ گئے ہیں۔ ان کا قصور محض اتنا بتایا گیا ہے کہ انھوں نے گجرات کے وزیراعلی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم امیدوار کی جانب سے ایک مقامی اسٹیڈیم کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی۔یہ تقریب 15فروری کو منعقدہوئی جبکہ پیرینٹس ایسوسی ایشن کے بھرت ادھوریو نے اس معطلی کو انتہائی بدبختانہ قرار دیا ۔انھوں نے اسکول اورپرنسپل کیخلاف ضلع حکام کو کارروائی کرنے کیلئے لکھا جبکہ فی الحال اس معاملہ کی تفتیش جارہی ہے تاہم معطلی کے شکار طالب علموں کے خائف والدین نے کہا کہ انہیں اسکول کیخلاف کوئی شکایت نہیں ہے جبکہ یہ حقیقتاً انضباطی کارروائی کی گئی ہے کیونکہ مذکورہ طالب علم نے کلاسوں میں حاضر نہیں تھے۔اسی دوران کانگریس نے الزام لگا دیا نریندرمودی سیاسی فائدے اٹھانے کیلئے اسکولی بچوں کی استعمال کررہے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے ’موت کا سوداگر‘ بتا کر چپ ہوگئی تھی۔پارٹی لیڈر نریندرراوت نے یہاں تک دعوی کیا ہے کہ ہم اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ ا س کیخلاف احتجاج بھی کریں گے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مودی کااپنی ہی ریاست کے عوام کیخلاف رویہ کا اولین واقعہ ہے؟ کیا2002 نسلی منافرت پر مبنی فسادات سے تادم تحریرجاری لوٹ کھسوٹ کسی سے مخفی ہے؟ آخر وفاقی حکومت کو کونساسانپ سونگھ گیا ہے جو وہ آج بھی کوئی کارروائی کرنے سے قاصرہے؟
اپنے منہ میاں مٹھو:
دوسری جانب حالت یہ ہے کہ مودی نے گجرات کی ترقی کاڈنکا پیٹ کر اپنی اتخابی مہم میںکوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ دیگر ریاستوں کیلئے ہی نہیں ، بلکہ پورے ملک کیلئے بھی گجرات نے ایک بہترین مثالی قائم کی ہے ۔ اس ماڈل کو ملک گیر بنانے کا خواب زور شور سے لوگوں کو دکھایا جا رہا ہے ۔ ترقی ، گڈ گورننس ، خوشحالی ، روزگار جیسے الفاظ تیزی سے ہوا میں اچھالے گئے ۔گجرات کی مثالی ترقی چاہے جتناا سپانسر ترانہ ہو ، وہاں ایک بڑا طبقہ کھل کر اس ماڈل کو چیلنج کررہا ہے ۔ یہ طبقہ ہے وہاں کے دیہی شہریوں کا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد ترقی کی مار سب سے زیادہ کسان ، قبائلی اور عوام جھیل رہے ہیں ۔ مین اسٹریم میڈیا بھلے ہی انہیں نظر انداز کر رہا ہو لیکن ملک کی تمام عوامی تحریکوں ، تنظیموں ، سماجی کارکنان اور دانشوروں کے درمیان ان کی آواز بلند رہی ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ گجرات ماڈل کی مخالفت کرنے والے سول سوسائٹی گروپ ، غیر سرکاری تنظیم ، سیاسی جماعتیں اور دانشور طبقہ اس کی ناکامی کو اجاگر کرتے وقت صرف یہی ذکر کرتے ہیں کہ وہاں انسانی ترقی نسبتا کم ہوئی ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ترقی کی تمام فہرستوں میں دیگر ریاستوں کے مقابلہ گجرات کو بہترگرداننا قطعی درست نہیں ہے ۔ کئی نقطہ نظرسے دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں کافی پیچھے بھی ہے ۔ ایسے حقائق اور اعداد و شمار لوگوں کے سامنے کثرت میں پیش کئے جا رہے ہیں ، جو یقینا غلط نہیں ہیں ۔
کون تھپتھپا رہے ہیں پیٹھ؟
گجرات ماڈل کی ناکامیاں گنوانے والے زیادہ تر لوگوں کیساتھ پریشانی یہ ہے کہ نریندر مودی کی ہی طرح وہ بھی بھاری صنعت کاری ، بنیادی ڈھانچہ یا انفراسٹرکچر کی تعمیر ، اندھا دھندتجدیدکاری ، ہائی ٹیک بستی ترقی اور قدرتی وسائل کے کارپوریٹروں کے مضبوط حامی ہیں ۔ اس لئے مودی کو ان پوائنٹس پر وہ گھیرنے کو بالکل تیار نہیں ہیں ۔ لیکن گجرات کے عام لوگوں کو کارپوریٹ ارتکازپرمبنی مثالی ترقی منظور نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جگہ جگہ متحد ہو کر بڑے بڑے منصوبوں کی مخالفت کر رہے ہیں ۔نریندر مودی کے اہم ترین منصوبہ میں شامل’مجسمہ اتحاد‘ کو ارد گرد کے 70 دیہاتوں کے کسان اور قبائلی چیلنج کر رہے ہیں ۔ نرمدایا سردار سروور ڈیم سے نیچے کی طرف 3‘2 کلومیٹر کی دوری پر واقع سادھو ٹیکری پر سردار پٹیل کے مجسمہ کا مجوزہ تعمیری منصوبہ ہے ۔ گزشتہ سال دو اکتوبر کو قبائلی نرمدا ضلع کے تحت ناندیڑ تعلقہ کے ادرور گاؤں کے قریب تقریبا دو ہزار قبائلی جمع ہوئے اور انہوں نے سیاحت کو فروغ دینے کے مقصد سے ریاستی حکومت کی طرف سے کی جانے والی تحویل آراضی کی مخالفت کی ۔ غور طلب ہے کہ ان16دیہات کے کسانوں کو ریاستی حکومت اب تک معاوضہ نہیں دے پائی ہے ، جس کی زمین نرمدا ڈیم کی وجہ سے زیرآب ہو گئی تھی ۔اس کے باوجود حکومت اس علاقے میں اب مزید زمین کی خواہاںہے ۔
ایس آئی آر کیخلاف قرارداد بے اثر:
گزشتہ سال 18جون کوقریب44گاؤں کے 10ہزار سے زیادہ کسان وٹٹھل نگر سے کوچ کرکے 7 سو سے زیادہ ٹریکٹروں کے ذریعہ گاندھی نگر پہنچے تھے ۔ انہوں نے گجرات حکومت کو میمورنڈم سونپا کہ سانند-ویرمگام کے تحت منڈل بیچراجی خاص سرمایہ کاری علاقے انہیں منظور نہیں ہے۔ اس لئے اسے فورا رد کر دیا جائے ۔ واضح رہے کہ 30 مئی ، 2013 کو منڈل بیچراجی بار میں آنے والی 44 میں سے 36 گرام سبھاوں نے اس علاقہ میں بننے والے خصوصی سرمایہ کاری کے علاقے ایس آئی آر کیخلاف قرارداد منظور کی تھیں ۔ گجرات حکومت نے 2009 میں خصوصی سرمایہ کاری علاقے ایکٹ ایس آئی آر ایکٹ بنایا تھا ۔ سچ کہا جائے تو حکومت ہند کی طرف سے منظورپذیر اور نافذ خصوصی اقتصادی زون’ایس ای زیڈ سیز کاورژن ہے جومتعدد ترمیمیں برداشت کرچکا ہے۔اس میںپیداواری اکائیاں تو ہوں گی ہی ، ان سب کیساتھ ساتھ وہاں تمام صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کا پیکج ہوگا یعنی ان کا جال بچھا ہواہو گا ، رہائشی احاطے ہوں گے ، تعلیم و صحت کی سہولیات میسرہوں گی ،تفریح اور دل بستگی کے سارے انتظامات میسر ہوںگے ۔ 2012 میں شمسی بیچراجی خاص سرمایہ کاری علاقے کی نوٹیفکیشن جاری ہوئی تھی ۔ گجرات میں ایسے13 منصوبے قطار میں کھڑے ہوں گے ۔
انتہائی زرخیز آراضی کی لوٹ:
منڈل بیچراجی پٹی کے تحت آنے والی زمین کا80 فیصد حصہ انتہائی زرخیز آراضی پر مشتمل ہے جن میں15 فیصد پر چراگاہ ہیں اور باقی5 فیصدمختلف قسم کے استعمال میں آنے والی بنجر زمین ہے ۔ اس علاقے میں 5 سو30 مربع کلومیٹر یعنی 53 ہزار ہیکٹریا تقریبا ایک لاکھ 26 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین پر خصوصی سرمایہ کاری کے علاقے تیار کئے جا رہے ہیں ۔ احمدآباد ، مہسانا اور سریندرنگر اضلاع کے44 گاؤں اس کی زد میں آ رہے ہیں ۔ متاثر خاندانوں کی تعداد 76 ہزار کے قریب ہے ۔یہیں بیچراجی- ویرمگام ہائی وے پر ہنسل پور گاؤں میں ماروتی سوزوکی کا پلانٹ تقریبا 7 سو ایکڑ زمین پرقائم ہورہا ہے ۔ ڈھائی ہزار ایکڑ زمین پر وٹھل نوونمیش شہر تیار کیا جانا ہے ۔ بھاونگر ضلع کے مہوا نامی دیہی انچل میں نرما کی سیمنٹ فیکٹری لگ رہی ہے ۔ اسی ضلع کی میٹھی وردی میں 777 ہیکٹر زمین پر امریکی کمپنی جی ای ہتاچی ویسٹنگ ہاوس نیوکلیائی توانائی پلانٹ نصب کرنا چاہتی ہے ۔ وٹھل پور میں ہی ماروتی سوزوکی نے ایک دوسری زمین خرید رکھی ہے جس کا رقبہ ہے 7 سو سے 8 سو ایکڑ کے درمیان ہے ۔قابل توجہ امر یہ ہے کہ دہلی – ممبئی انڈسٹریل کوریڈور کے گجرات سے گزرنے والے حصہ سے وابستہ ہے منڈل بیچراجی خاص سرمایہ کاری کے علاقے ہیں۔
نقار خانہ میں طوطی کی پکار:
گجرات کے کسان ،قبائلی اور عوام کہہ رہے ہیں کہ ترقی کا یہ ماڈل انہیں منظور نہیں ہے جو کھیتی باڑی‘دیہی آبادی پر مشتمل بستی ، ذریعہ معاش اور فطرت کو اجاڑ کر ان کے مقام پر کارپوریٹ شعبہ کے پلانٹ ، ہائی ٹیک ٹاؤن شپ اورایس آئی آر ، سیج کھڑے کرتا ہے ۔قابل غور امر یہ ہے کہ دہلی- ممبئی انڈسٹریل کوریڈور سے گجرات میں کئی منصوبے جوڑے جائیں گے ۔ ان کیخلاف کسانوں ، قبائلیوں اور مقامی کمیونٹیوںمیں کافی غم وغصہ پھیلا ہوا ہے اور وہ جگہ جگہ مزاحمت کررہے ہیں ۔گجرات کے عام لوگ ایسی صنعتی یا کاروباری سرگرمیوں اور یونٹوں کا استقبال کرنے کے خواہش مند ہیں جو ان کی کھیتی باڑی ، روزی ، زندگی ، لوک ثقافت ، مقامی رنگ اور فرقہ وارانہ یکجہتی ، ملکیت ، فطرت اور ماحولیات سے مناسبت رکھتی ہو ۔ چنی بھائی وید جیسے تپے تپائے سروودیہ کارکن ، گاندھی وادی اور دیگر سماجی کارکنان گاؤںدر گاؤں جاکر لوگوں کو یہ احساس کروا رہے ہیں کہ قدرتی وسائل آبائی طورپر سماج یعنی مقامی کمیونٹیوں کے ہیں ۔ چنی بھائی وید لکھتے ہیںکہ’ حکومتوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ ملک میں میسرپانی، جنگل ، زمین ، معدنیات، سمندر ، دریا وغیرہ تمام قدرتی وسائل کی وہ تن تنہا مالک ہیں ، پر اب یہ سوال کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ قدرتی وسائل کا حقیقی مالک و مختار اور حقدار کون ہے ؟حکومت یا معاشرے ؟ کیاسماج خود ساختہ ہے یعنی خود ہی پیدا ہوگیا ہے؟ ۔ اسے کوئی کرتادھرتا نہیں ہے؟ حکومت کا کام سماج کو بہتر بنانا ہے ، تعمیر کرتا ہے ، بدلنا ہے ۔ سماج ہی حکومت کو تنخواہ دیتا ہے ۔ صدر سے لے کر چپراسی تک تام عملہ سماج کے تنخواہ دار نوکر ہیں ۔ سماج جو مالک ہے اس نے پانی، جنگل ، زمین ، معدنیات، سمندر ، دریا وغیرہ قدرتی وسائل اپنے تنخواہ دار نوکر حکومت کو انتظام کیلئے فراہم کیے ہیں‘ ان کو فروخت کرنے کااس نے حق تفویض نہیں کیاہے جبکہ حکومتوں کو یہ مغالطہ ہورہا ہے کہ وہ مالک ہیں ۔ وہ اس زمین کو فروخت کریں ، دریاؤں کوبیچ دیں اور جنگلوں اور سمندروں کو ٹھیکہ پر اٹھادیں۔‘ یہ جمہوری مزاج اور تصور کیخلاف ہے کہ حکومتیں ملک کے قدرتی وسائل کو زبردستی اپنی تحویل میں کرکے انہیں کارپوریٹ گروپوں کے حوالے کرتی جائیں جن پر ان کے بڑے بڑے پلانٹ قائم ہو سکیں ۔آج نوبت یہ آچکی ہے کہ گجرات میں ایسے کئی پلانٹوں کیخلاف تحریک چل رہی ہے ۔
مقامی اور غیر ملکی کثیر قومی کمپنیوں پر نوازشیں:
گجرات میں جو کسان قابل کاشت زمین چاہتے ہیں ، ان کو دینے کیلئے حکومت کے پاس زمین میسر نہیں ہے ۔ لیکن نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی کثیر قومی کمپنیوں کیلئے حکومت کے پاس زمین ہی زمین ہے ۔ چنی کاکا لکھتے ہیںکہ’ ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ غریبوں کو کھیتی کر سکیں‘ اتنی5 یا10 ایکڑ زمین دے کر کھیتی کرواؤ ۔کاشتکاروںکو دیتے ہیں تومحض ایک یا دو ایکڑ جبکہ صنعتی گھرانوں کو5 ہزار سے20ہزار اور40 ہزار ایکڑ زمین دی جا رہی ہے ۔ ‘گجرات حکومت کسانوں کی زمین کوڑیوں کے بھاو مقامی‘ غیر ملکی کثیر قومی کمپنیوں کو لٹاتی جا رہی ہے ۔کچھ ضلع کے لکھپت تعلقہ میں دیپک سیمنٹس کو84 ہیکٹر زمین محض5 روپے فی میٹر کی شرح پر حکومت کی طرف سے فراہم کروائی گئی ہے۔ 2007 اور 2009 کے دوران’ متحرک گجرات عالمی سرمایہ کار سربراہی کانفرنسوں عرف’ وئی برینٹ گجرات گلوبل انویسٹرس سمٹس ‘میں حکومت نے مقامی اور غیر ملکی کثیر قومی کمپنیوں کو ریاست میں صنعتی پلانٹس اور کاروباری اڈوں کے قیام کیلئے انتہائی اہم یا حساس ’ا سٹریٹیجک‘ مقامات پر تقریبا برائے نام قیمت پر قیمتی زمین دینے کی یقین دہانی کرواکے انھیں ملتفت کیا ۔
برائے نام معاوضہ پرتحویل آراضی :
لرسن اینڈ ٹبرو کو 109 ہیکٹر زمین جنوبی گجرات واقع سوالی میںمحض سو روپے فی مربع میٹر کی شرح پر حکومت کی طرف سے مہیا کروائی گئی ۔ اسی طرح ، ایسار گروپ کو گاندھی نگر میں10 ہیکٹر سے زیادہ آراضی محض5 ہزار روپے فی مربع میٹر کی شرح سے ملی ۔اے بی جے سیمنٹ نے3 سو ہیکٹر زمین محض11 روپے فی مربع میٹر کی شرح پر خریدی ۔ ریلائنس جام نگر انفراسٹرکچر کو 14 سو ہیکٹر زمین80 روپے سے لے کر3 سو90 روپے فی مربع میٹر کے انداز سے دی گئی ۔ بھروچ واقع جمبوسار میں اسٹرلنگ انفراسٹرکچر نے 577 ہیکٹر زمین57 روپے فی مربع میٹر کے حساب سے ہتھیالی ۔ کوسٹل گجرات پاور کمپنی کے اکاؤنٹ میںکچھ علاقے کی 218 ہیکٹر زمین12 روپے فی مربع میٹر کے حساب سے دی گئی ۔ سرخاب برڈ ریزرٹ کو20 ہیکٹر زمین11 روپے فی میٹر کے انداز سے کچھ ضلع کے مانڈوی میں دی گئی ۔ تلسی بایوسائنس نے بلساڑکے پرڈی علاقہ میں3 ہیکٹر زمین ساڑھے5 سو روپے فی مربع میٹر کے حساب سے اپنے نام درج کروائی ۔ گجرات حکومت’وائی برینٹ گجرات انویسٹرس سمٹ ‘ کے علاوہ وقتا فوقتا کارپوریٹ گھرانوں کو افراط میں زمین تقریبا برائے نام قیمت پر یعنی خیرات میں بانٹ دی گئی جبکہ مذکورہ تفصیل مکمل نہیں ہے لیکن اس حقیقت کا انکشاف ضرور کرتی ہے کہ گجرات میں کس طرح حکومت کو مہرہ بنا کر مقامی‘ غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیاں کسانوں کی زمین کی کھلی ہوئی لوٹ کر رہی ہیں ۔ یہ سلسلہ رک نہیں رہا ہے بلکہ کارپوریٹ قوتوں کی طرف سے مقامی لوگوں کی زمین ہتھیانا جاری ہے جبکہ مقامی کسان کسی بھی قیمت پر اپنی بالشت بھر زمین بھی کارپوریٹ مافیاوں کو دینا نہیں چاہتے ۔عجیب بات یہ ہے کہ قومی پریس میں یہ تمام حقائق منظر عام پر آنے کے باوجود نہ جانے وفاقی حکومت کیوں چین کی نیند سوئی ہوئی ہے!گویا کہ…
امیر شہر نے قربان کئے ہیں بکرے
غریب شہر پھر ترسے گا بوٹی بوٹی کو۔(یو این این)