ماہرین کہتے ہیں کہ بطور ِخاص ان بچوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو کہ فربہی کی طرف مائل ہیں، کیونکہ بچوں میں موٹاپا ٹائپ ۲ذیابیطس کو جنم دے سکتا ہے۔
کولوراڈو سکول آف پبلک ہیلتھ کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں یہ امر سامنے آیا ہے کہ ۲۰۰۱سے لے کر۲۰۰۹تک چھوٹے بچوں اور نوجوانوں میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔کولوراڈو سکول آف پبلک ہیلتھ کی ڈاکٹر ڈینا ڈیبیلی کہتی ہیں کہ گو کہ اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے امریکہ میں بچوں اور نوجوانوں میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی شرح میں اضافہ نوٹ کیا گیا۔ مگر یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان عوامل کو نظرانداز کرنے سے ہم بچوں کے ان مسائل میں مزید اضافہ کریں گے۔ڈاکٹر ڈینا ڈیبیلی کے مطابق، ’اس تحقیق سے بچوں میں ایک اہم مسئلے کی طرف نشاندہی ہوتی ہے جس کی طرف توجہ نہ دینے کی صورت میں یہ مسئلہ مستقبل میں سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔ جب بھی کوئی بچہ ذیابیطس میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسے فرد کا اضافہ ہو گیا جو کہ روز مرہ امور ایک عام صحتمند انسان کی طرح سر انجام نہیں دے سکتا اور جس کو مستقبل میں مزید کئی بیماریاں ب
ھی لاحق ہو سکتی ہیں‘۔ڈاکٹر ڈینا ڈیبیلی اور ان کی ٹیم نے ریاست کیلی فورنیا، کولوراڈو، اوہائیو، جنوبی کیرولینا اور واشنگٹن سے ڈیٹا اکٹھا کرکے اس کا جائزہ لیا۔ اس تحقیق میں ۱۹؍یا اس سے کم عمر کے ۳۰ لاکھ بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔۲۰۰۱میں ہر دس ہزار بچوں میں سے ۸ء۱۴؍ بچوں میں ٹائپ 1 ذیابیطس کی تشخیص ہوئی، یہ ذیابیطس کی وہ قسم ہے کہ جس میں انسانی جسم انسولین نہیں بنا پاتا۔ انسانی جسم میں خون کے بہاؤ سے شکر ہٹانے کے لیے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس شکر کو توانائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔۲۰۰۹تک بچوں میں ٹائپ 1 ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی شرح ہر دس ہزار بچوں میں سے۳ء۱۹ تھی۔ دوسری طرف ٹائپ ۲ ذیابیطس گو کہ زیادہ عام ہے مگر اس کی تشخیصت عموماً بڑی عمر میں ہوتی ہے۔
ذیابیطس کی اس قسم میں انسانی جسم انسولین تو بناتی ہے مگر اسے بہتر طریقے سے استعمال نہیں کر پاتی۔اس تحقیق کے لیے تحقیق دانوں نے ۱۰ برس یا اس سے زائد عمر کے بچوں میں ٹائپ۲ ذیابیطس کے کیسز کا جائزہ لیا۔۲۰۰۱ میں ہر دس ہزار بچوں میں سے ۴ء۳ بچے جبکہ ۲۰۰۹ میں ہر دس ہزار بچوں میں سے ۶ء۴ بچے اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ گویا آٹھ برسوں کے دوران بچوں میں ذیابیطس بڑھنے کی شرح ۳۱فیصدرہی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں ذیابیطس کے مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے نہ صرف آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے، بلکہ ان عوامل کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا جو بچوں کو اس موذی مرض میں مبتلا کرکے ان کے مستبقل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ بطور ِ خاص ان بچوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو کہ فربہی کی طرف مائل ہیں کیونکہ موٹاپا ٹائپ۲ ذیابیطس کو جنم دیتا ہے۔ لہذا، والدین کو چاہیئے کہ وہ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی ورزش کی طرف راغب کریں تاکہ ایک صحتمند طرز ِ زندگی بچوں کو ان بیماریوں سے دور رکھ سکے۔اس تحقیق کے نتائج جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع کیے گئے۔