نئی دہلی، 13 جنوری (یو این آئی) وزیراعظم من موہن سنگھ نے آج فرقہ وارانہ تشدد کے حالیہ واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور متاثرہ ریاست کا نام لئے بغیر کہا کہ اس قسم کے واقعات سے ایک سیکولر معاشرے کی نمائندگی کرنے والے ملک ہندوستان کی شبیہ خراب ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے بڑے حصے میں اقلیتوں اور اکثریت کے درمیان جہاں ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہیں حال ہی میں بعض حلقوں میں اس رشتے کو شدید آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے۔غالباً ان کا اشارہ مظفرنگر کے فرقہ وارانہ فسادات کی طرف تھا۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات نہ صرف وطن عزیز اور ہمارے معاشرے کا وقار مجروح کرتے ہیں بلکہ ملک کی تیزرفتار اقتصادی ترقی میں حصہ لینے کی ایک بہت بڑی آبادی کی صلاحیتوں کو بھی منفی طور پر متاثر کرتے ہیں ۔ وزیراعظم نے یہاں ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کے رحمان خان بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی ذمہ داری اکثریت اور اقلیتوں دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ دونوں کو مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس سے سبھی خود کو آہنگ کرسکیں۔
وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ کثرت میں وحدت ہندوستانی تہذیب و تمدن کی بنیاد ہے اور ہندوستانی سیکولرازم محض رواداری کا نام نہیں بلکہ یہ مذہبی ہم آہنگی سے عبارت ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ان کی حکومت ملک کی سیکولراقتدار کے تحفظ اور فروغ کے علاوہ مختلف مذاہب کی نمائندگی کرنے والی تمام اقلیتی فرقوں کو مساویانہ طور پر مواقع فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کے لئے عہدبند ہے۔قومی اقلیتی کمیشن کا قیام 1992 میں عمل میں آیا تھا جس کے بعد کئی ریاستوں میں بھی ایسے اداروں کی تشکیل عمل میں آئی۔ سردست ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی تعداد 17 بتائی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومی اقلیتی کمیشن اور ریاستی اقلیتی کمیشنوں نے گزرنے والے برسوں کے دوران اقلیتوں کے ان حقوق کے تحفظ میں اہم رول ادا کیا ہے جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں برابر کے شہریوں کی حیثیت سے اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ میں ان کمیشنوں کے کردار کی بھی انہوں نے ستائش کی۔
وزیراعظم نے اقلیتوں کی بہبود کے لئے 15 نکاتی پروگرام سمیت ایک سے زیادہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کثیر شعبہ جاتی ترقیاتی پروگرام کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہیں گے جسے سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں 09۔2008 میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد ملک بھر میں اقلیتی ارتکاز والے 90 اضلاع میں حالات کو بہتررخ پر بدلنا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ 11 ویں پنچ سالہ منصوبے میں جہاں اس پروگرام کے لئے 3700 کروڑ روپئے سے زیادہ کی رقم مختص کی گئی تھی وہیں 12 ویں منصوبے میں یہ رقم بڑھا کر کوئی 5800 کروڑ روپئے کردی گئی ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس پروگرام کی منصوبہ بندی اور عملداری کے لئے 14۔2013 سے اضلاع کی جگہ بلاکوں کو نشان زد کیا گیا۔ اس طرح اب 710 اقلیتی ارتکاز والے بلاک کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے بتایاکہ اس پروگرام کے تحت اقلیتی ارتکاز والے 66 قصبات کی بھی الگ سے نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ان کا بھی احاطہ کیا جاسکے۔ اس پروگرام کے آغاز سے اب تک جو ٹھوس کامیابیاں ملی ہیں ان میں اضلاع میں اسکولی عمارتیں ، ہاسٹل، پرائمری ہیلتھ مراکز، آنگن واڑی مراکز اور آئی ٹی آئی اداروں کے علاوہ پالیٹکنک ادارہ بھی کھولے گئے ہیں۔
سچرکمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت 76 سچر سفارشات میں سے 72 سفارشوں کو قبول کرچکی ہے اور ان پر عملدرآمد کے لئے متعلقہ وزارتیں اب تک 43 فیصلے کرچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باقی ماندہ چار سفارشوں کو بھی عمل میں لانے کے اقدامات کئے گئے لیکن ان سفارشوں کے تعلق سے معاملات زیر عدالت ہیں۔ نئے 15 نکاتی پروگرام میں بھی زائد از ایک سچر سفارشات سے رجوع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے اقلیتوں کو مساویانہ تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی مواقعوں تک مساویانہ رسائی کا یقینی طور پر متحمل بنانے کے لئے قومی اقلیتی ترقیاتی و مالیاتی کارپوریشن کے قیام کا بھی ذکر کیا۔ یہ ادارہ اقلیتی فرقوں کے اپنا روزگار آپ کرنے کے خواہشمندوں کو رعایتی شرحوں پر سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ اقلیتوں کو اپنی پسند تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا محفوظ حق فراہم کرنے کے لئے اقلیتی تعلیمی اداروں کے قومی کمیشن کے قیام ، مولانا آزاد ایجوکیشن فاونڈیشن کی تعلیمی اسکیمیں اور منصوبے ، مرکزی وقف کونسل کا قیام اور پسماندہ طبقات کے قومی کمیشن کا بھی ڈاکٹر سنگھ نے اپنے خطبے میں احاطہ کیا۔