صابررضارہبر
شخصی آزادی اورحقوق انسانی کی حفاظت کے اعتبارسیجمہوری نظام کوایک نعمت مترقبہ سے تعبیرکیاگیا ہے۔شہنشاہی اورسرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آچکی دنیاپرفلاسفہ نے جب جمہوریت کا نظریہ پیش کیاتواس وقت اس کی زبردست مخالفت کی گئی اوردلیل دی گئی کہ محض تعدادکی بنیادپراہم فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔ جمہوری نظام میں انسان گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے۔ اگر۰۵?عقل مندکسی چیز کی مخالفت میں ووٹ دیں اور۵۱احمق اس کی حمایت کا اعلان کردیں تو درست وہی قراردی جائے گی خواہ وہ ملک ومعاشرہ کے لییباعث خیر ہویا باعث شر۔جمہوریت کا یہ فلسفہ مشہورفلسفی افلاطون کوبھی سمجھ نہیں آیا۔اس کی نظرمیں جمہوریت مستقل کشمکش ،فتنہ ،فساد،محض دھوکہ ،فریب ،عام لوگوں کی رائے کوحقیقت یا علم کا درجہ دینا جہالت ، رائیتعصب اورتنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔اسی طرح ماضی قریب میں مشرق کے مشہور فلسفی علامہ اقبال کا مزاج بھی اس جمہوریت سے میل نہیں کھایااورانہوں نے طنزکرتے ہوئے کہاکہ
جمہوریت وہ طرزحکومت ہے کہ جس میں
بندوں کوگنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
میں افلاطون کے اس نظریہ پرایک عرصہ سے غوروفکرکررہا تھاکہ ایک عظیم فلسفی ایک ایسینظام کی مخالفت کیوںکرکرسکتاہے جس میں بلا تفریق رنگ ونسل اورمذہب محض انسان ہونے کی بنیادپراس کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہو۔لیکن گزشتہ دودہائیوں سے جمہوریت کے نام پرجاری تماشے ،۱۳فروری کوہندوستانی پارلیمنٹ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اوردہلی اسمبلی میں اروندکیجرال کے ڈرامائی انداز میں استعفیٰ کے اعلان نے بہت کچھ صاف کردیا۔
سابق امریکی صدرابراہیم لنکن کی زبان میں جمہوریت عوام کیلئے عوام کی حکومت ہے لیکن اب جمہوریت کی یہ تعریف بڑی تیزی کے ساتھ اپنے حقیقی معنی سے دورہوتی جارہی ہیاوراس کی جگہ عوام کی حکومت خواص کیلئے ہوتی جارہی ہے۔افلاطون وہ پہلا شخص ہے جس نے سیاسیات کو باضابطہ طورپراپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اوراس کے تمام پہلوئوں کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعدبڑی بے باکی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کیا۔افلاطون نییونانی جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے استاد سقراط کی موت کے بعد یہ نتیجہ اخذکیاکہ جمہوریت جم غفیرکی حکمرانی ہے۔ایک طویل تجزیہ وتجربہ کے بعد اس نے سیاسیات پرریاست (Republic) مدبر (Statesman) اورقوانین ( The Laws) نامی مشہورزمانہ کتابیں تصنیف کیں۔
افلاطون نے اپنی کتابوںمیں یونان کے مروجہ جمہوری روایت کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک فرسودہ نظام قراردیا اورکمیونزم (اشتمالیت ) کا نظریہ پیش کیا۔اس کے آرا کی سب بڑی خوبی یہ رہی کہ اس زمانے کے سیاسی مفکرین اس کا متبادل پیش کرنے سے قاصررہے۔بعدمیں چل کرافلاطون کے شاگردارسطونے ہی اپنے استادکے نظریات کی تردیدکی لیکن وہ بھی متبادل تجویز لانے میں ناکام رہے۔
افلاطون کے سیاسی نظریات ہمیشہ سے متنازع رہے اوراکثرماہرین سیاسیات نے اسے جمہوریت مخالف قراردیا لیکن یہ پوری طرح نہیں درست ہے۔وہ یونان میں رائج معیارات جمہوریت سے سخت متنفرتھا کیوںکہ وہ عوام کواستعمال کرنے اوران باتوںکواستعمال کرنے کیلئے تیارنہیں تھا جو یونانی ذہن کے مطابق جمہوری تھی مگرسچی بات یہ تھی کہ وہ اپنے وقت کا سب سے عظیم جمہوریت پسند انسان تھا۔افلاطون کے سیاسی نظریات اوراس دورکے جمہوری نظام کا جائزہ لینے کے بعدیہ بات سمجھنے میں ا?سانی ہوجاتی ہے۔دراصل افلاطون کا کہنا تھاکہ اگرگروہ پسندی ، بدعنوانی اور سب سے بڑھ کر نااہلیت اگر جمہوریت کی قیمت ہے تو یہ ایک بڑی قیمت ہے جوسماج کو جمہوریت کے فوائدسیہی محروم کردیتی ہے۔
اگردورجدیدکے جمہوری نظام پرایک نظرڈالیں اورصاحبان اقتدار،جمہوری نمائندگان کی حرکت ،ان کے طرزعمل اوران کی علمی قابلیت کے موازنہ کے بعدجوتصویرابھرتی ہے اس میں افلاطون کے نظریے کاعکس گہرا نظرآتا ہے۔اس کا اعتراف افلاطون پر مطلق العنانیت اورجمہوریت مخالف قراردینے والیمتشددناقدین نے بھی کیااور وہ بھی اس بات پرمتفق نظرآتے ہیں کہ علم کوہرحال میں مقدم ہونا چاہئے۔کیا یہاں اس بات سے انکارکی گنجائش ہوسکتی ہیکہ افلاطون کے یونان کی طرح آج بھی جمہوری نظام کی باگ دوڑنااہل اوراَن پڑھ افرادکے ہاتھوںمیں ہے۔ وہی ملک وعوام کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔قوانین کے نگہبانوں کو بدعنوان لیڈران اورسرمایہ داران،باشعوروذی علم افسران کوان پڑھ گنوار رہنماوئں کے اشارے پر چلنا پڑرہاہے۔عوام اورملکی مفادپر ذاتیات کوترجیج دینے کی روایت جڑپکڑتی جارہی ہے۔قانون ساز ادارے(یہاں تک کہ عدلیہ) بھی بدعنوانی کے جراثیم سے پاک نہیں رہ گئے ہیں۔کیاایسے حالات کے باوجود افلاطون کوجمہوریت مخالف قراردیاجاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ افلاطون نے انہیں برے رجحانات کے پیش نظرجمہوریت کومستقل کشمکش اورفتنہ وفسادکا سبب گرداناتھا،یہی وجہ تھی کہ اشتمالیت یعنی کمیونزم پراس کا یقین پختہ تھا۔اگردورجدیدکیمشہورصحافی اورتجزیہ نگارصحافی کلدیپ نیر بھی کمیونزم سے ہی ا?س لگابیٹھے ہیں تواسے ہم افلاطون کے نظریہ کی کرامت ہی کہیں گے۔
ہندوستان سمیت تقریباً تمام ایشیائی ممالک جہاں جمہوری نظام رائج ہیوہاں کاحکمراں طبقہ اورعوامی نمائندے اپنے ملک اورعوام کے تئیں مخلص نہیں ہیں(اگران میں ایک دوایماندارہیں بھی تووہ الشاذوکاالمعدوم کے زمرے میں ہیں)۔وہاں کرپشن ایک سنگین مسئلہ بن کرسامنے آرہا ہے۔لوٹ گھسوٹ ،فتنہ وفسادکا بازارگرم ہے۔سیاسی عدم استحکام اورلے دے کی سیاست نے عوام کومستقل کشمکش کی حالت میں مبتلاکررکھاہے۔مسلسل سیاسی استحصال سے نالاں ہوکراب توعوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال بھی بے کارسمجھنے لگے ہیں جوجمہوریت کیلئے نیک فال نہیں ہے۔ایسا نظام جہاں اقتدارکے حصول کیلئے کسی بھی حدتک جایاجاسکتاہو؛اسے عوام دوست کیسے قراردیاجاسکتاہے۔جمہوری نظام میں توسب کویکساں حقوق حاصل ہیں ،رنگ ونسل اورمذہب کی بنیادپرکسی طرح کی تفریق قابل جرم ہیاوروہاں انصاف کا ایک ہی پیمانہ ہے لیکن اگررنگ ونسل اورمذہب کی بنیادپرجاری قتل وغارت گری اورناانصافی پرایک نگاہ ڈالی جائے تو اس میں وہ ممالک سرفہرست نظرا?ئیں گے جہاں جمہوری نظام قائم ہے۔
قومی راجدھانی دہلی کیعوام کوعام ا?دمی پارٹی کی شکل میں ایک بہترین متبادل ملاتھا جس کے ذریعہ ریاست کوبدعنوانی کے جراثیم سے پاک کرنے کے ساتھ عوامی فلاح اورملکی مفادکے حق میں پالیسی سازی کابہتر موقع تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اروندکیجریوال ایک ایماندارشخص ہیں لیکن وزیراعلیٰ کے عہدہ سے خودساختہ حالات کے سبب مستعفی ہوجانے کا فیصلہ دراصل ذمہ داریوں سے راہ فراراختیارکرناہے۔ان کے اس اقدام نے عوام کوایک بارپھرکشمکش میں مبتلاکردیا ہیجس میں نہ توعوام کا مفادہے اورنہ ہی ملک کا۔مجھے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعلیٰ سے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایوان میں کسی بل کے پیش کرنے کے جمہوری طریقوں سے انحراف کربیٹھیں گے۔کیجرال کا یہ فیصلہ بھلے ہی ان کی نظرمیں ہزارحکمتوں سے بھرے ہواہولیکن اسے ملک وعوام کے ساتھ ہمدردی سے تعبیرنہیں کیاجاسکتا۔
میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جمہوری نظام کوختم کردیاجائے بلکہ میں اس کی روح اورجسم میں اتحاد کا آرزومند اور جمہوریت کے نام پرپروان چڑھ رہے غیرجمہوری روییسے نالاں ہوں۔آج کی صورت حال کودیکھ کر جی چاہتا ہے کہ کہہ دوں واقعی جمہوریت مستقل کشمکش ،فتنہ ،فساد،محض دھوکہ اورفریب ،عام لوگوں کی رائے کوحقیقت یا علم کا درجہ دینا جہالت ،عوامی رائیتعصب اورتنگ نظری کے سوا کچھ نہیں ہے۔(یو این این)