ہندی فلم انڈسٹری کے 100 سال کی فلموں کا جائزہ لیا جائے تو 1913ء سے آج تک شاید ہزاروں فلمیں بنیں اور نمائش کے لئے پیش کی گئیں ۔ ان میں کئی فلاپ رہیں تو کئی کامیاب کئی نے سلور جوبلی منائی تو کئی نے گولڈن جوبلی بھی منائی لیکن فلمی دنیا کی سو سالہ تاریخ میں شاید 8 ہی ایسی فلمیں ہیں جنہیں لگاتار نمائش کا اعزاز حاصل ہے۔ یوں تو نمائش اور کلکشن کے اعتبار سے سینکڑوں فلموں نے ریکاڈ بنایا ہے۔ طویل وقت تک
کسی ایک تھیٹر میں لگاتار شائقین کے ساتھ دیکھی جانے والی فلموں میں جو نام لئے جاسکتے ہیں وہ یہ ہیں۔
قسمت: یہ ہندوستان کی پہلی سوپر ہٹ فلم تھی جسے 1942ء میں بامبے ٹاکیز نے بنایا تھا، گیان مکرجی قسمت کے مصنف تھے، یہ اس زمانے کی پہلی فلم تھی جس کا ہیرو سگریٹ پیتا تھا، شراب پیتا تھا جوا کھیلتا تھا اور چوری کرکے جیل بھی جاتا تھا، کوئی تصور بھی نہیں
کرسکتا تھا کہ ہیرو بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ یعنی اس فلم میں ہیرو نے پہلی بار نگیٹیو رول کیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو اشوک کمار اور ہیروئین ممتاز شانتی تھے۔ بامبے ٹاکیز کے مالی بحران کے دنوں میں پروڈیوس کی گئی اس فلم کے تقسیم کے حقوق فروخت نہ ہونے کی وجہ سے اسے کمیشن پر ریلیز کیا گیا تھا۔ اس فلم کی تکمیل پر چار لاکھ روپیوں کی لاگت آئی تھی۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو لوگوں نے بہت پسند کیا اور اس فلم نے کولکتہ کی کچھ تھیٹرس میں اپنی نمائش کے تین سال آٹھ ماہ مکمل کئے اور اس فلم نے اپنے بزنس میں اس وقت 90 لاکھ روپے کمائے تھے۔
رتن : 1943 ء میں ایم صادق کی ہدایت میں بنی این مدھوک کے لکھے گیتوں کی اس فلم نے بھی اپنی نمائش کا ایک ریکارڈ بنایا۔ فلم کا ایک گیت ’’انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘‘ آج بھی لوگ سنتے ہیں۔ اس فلم کی کامیابی موسیقار نوشاد کی موسیقی تھی یا ڈی این مدھوک کے گیت اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ فلم ریلیز ہوئی تو فلمساز کو یہ بھی امید نہیں تھی کہ فلم چل جائے گی۔ کولکتہ کے ایک سنیما گھر میں پہلے تو یہ ایک ہفتہ میں ہی اتر گئی لیکن چند ہی دنوں بعد دوسرے سنیما گھر میں جب یہ ریلیز ہوئی تو تقریباً ایک سال تک چلتی رہی۔ اس فلم کی کامیابی نے باریک آواز والے کرن دیوان کو بھی اسٹار بنا دیا تھا۔
محل : بامبے ٹاکیز کی ایک اور فلم ’’محل‘‘ جس نے اپنی کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے تھے۔ 9 لاکھ روپیوں کی لاگت سے بنائی گئی تھی اور اس دور میں فلم نے اپنی نمائش کے دوران دہلی اور بامبے سے ہی 30 لاکھ روپیوں کی کمائی کی۔ اس فلم کو سارے ملک میں پسند کیا گیا۔ فلم میں اشوک کمار اور مدھو بالا نے مرکزی کردار نبھائے تھے۔ فلم کچھ سال بھر تک چلتی رہی۔
مغل اعظم : کے آصف کی مغل اعظم اس وقت سب سے زیادہ کمانے والی فلم رہی۔ کے آصف نے 1945 ء میں اس فلم کو بنانے کا منصوبہ بنایا تھا اور فلم شروع بھی کردی تھی، لیکن فلم درمیان میں ہی رک گئی ۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ فلم 15 سال میں بنی اگر اسے 1945ء سے نہ جوڑا جائے تو یہ فلم آٹھ برسوں میں مکمل ہوئی۔ فلم کی عظمت اس کے ’’مجھ سے میرے خواب مت چھینئے صاحب عالم میں مرجاؤں گی‘‘ جیسے مکالمے شیش محل کا شاندار سیٹ، پرتھوی را ج کپور، دلیپ کمار اور مدھوبالا کی اداکاری کے آصف کی بہترین ہدایتکاری مغل اعظم کو ایک عالیشان فلم بنانے کے لئے کافی تھے۔ کے آصف نے اس فلم کے لئے کافی محنت کی تھی۔ جودھا بائی کی پوشاکیں جئے پور کے کاریگروں نے سونے کی کڑھائی کے ذریعہ تیار کئے تھے۔
جنگ کے دوران سلیم کا جو بکتر تھا وہ اصلی تھا۔ یہاں تک کہ ’’بے کس پے کرم کیجئے‘‘ گیت میں مدھوبالا کی زنجیریں بھی اصلی وزنی آہنی تھیں۔ فلم کی ابتداء میں بادشاہ اکبر ہاتھ باندھے بیٹے کے لئے دعا مانگنے ۔ حضرت سلیم چشتی کے مزار پر جاتے ہیں جن کے لئے پرتھوی راج کپور نے ننگے پاؤں جئے پور کے تپتے ریگستان میں چلا۔ اس منظر کی فلمبندی کے بعد پرتھوی راجکپور کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ فلم کا اسکرپٹ کمال امروہی، وجاہت مرزا، احسن رضوی اور امان اللہ خان نے لکھا تھا۔ یہ فلم اس وقت ہرٹریٹری میں 17 لاکھ روپیوں میں فروخت ہوئی تھی۔ بامبے کے مراٹھا مندر میں یہ فلم 5 اگست 1960ء کو ریلیز ہوئی تو اس کی ٹکٹ اس زمانے میں دو سو روپیوں میں بلیک کی گئی۔ ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں مغل اعظم جیسی شاندار اور کامیاب فلم آج تک نہیں آئی۔ یہ ایک ساتھ 50 سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی۔ مراٹھا مندر میں مسلسل تین سال تک چلتی رہی۔
مدرانڈیا: فلمساز محبوب خان کی یہ فلم 1957ء میں تیار ہوئی۔ یہ فلم ایک پرانی فلم ’’عورت‘‘ کا ری میک تھی۔ اس زمانے کے ساہوکاروں کے ذریعہ کسانوں کے استحصال پر چوٹ کرتی ہوئی یہ فلم سماجی، سیاسی اور جذباتی طور پر بہترین فلم ثابت ہوئی ۔ نرگس، راج کمار، راجندر کمار، کنہیا لال کی بہترین اداکاری سے سجی یہ فلم 25 لاکھ روپیوں میں بنی تھی۔ جوہر ٹریئری میں اس وقت 30 لاکھ روپیوں میں فروخت ہوئی اور فلم نے اس وقت جملہ 10 کروڑ روپیوں کا بزنس کیا تھا۔ یہ فلم آسکر کے لئے بھی نامزد ہوئی اور اس کی لگاتار نمائش بھی ایک ریکارڈ ہے۔
شعلے : ہندوستانی فلمی تاریخ کی سب سے زیادہ چلنے اور ہٹ ہونے والی فلموں میں ایک نام ’’شعلے‘‘ کا بھی ہے۔ 1975ء میں نمائش کے لئے پیش کی گئی یہ فلم ممبئی کے منروا تھیٹر میں مسلسل پانچ برسوں تک چلتی رہی۔ اور تو اور شروع کے 75 ہفتوں تک اس فلم کی کرنٹ بکنگ کھلنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس فلم کو ملک کے ایک سو دو سنیما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز کیا گیا تھا جن میں ساٹھ سنیما گھروں میں اس نے گولڈن جوبلی اور 26 تھیٹرس میں سلور جوبلی منائی ۔ یہ فلم ڈھائی کروڑ روپیوں کی لاگت سے بنائی گئی تھی اور ہر ٹریٹری نے ایک کروڑ سے زیادہ نفع حاصل کیا تھا۔ رمیش سپی کے ڈائرکشن میں بنی پروڈیوسر جی پی سپی کی اس فلم میں امیتابھ بچن، ہیما مالنی، دھرمیندر، سنجیو کمار، امجد خان، اے کے ہنگال، جیا بہادری نے اہم کردار ادا کئے تھے۔ اسٹوری ’’ڈائیلاگس اور اسکرین پلے سلیم جاوید کا تھا۔
جئے سنتوشی ماں: 1975ء ہی میں ریلیز ہوئی ایک اور سوپر ہٹ فلم ’’جئے سنتوشی ماں‘‘ تھی فلمساز سترام وہرہ نے یہ فلم بہت ہی کم بجٹ میں شروع کی تھی۔ ہیرو اشیش کمار، کامنی کوشل اور انیتا گوہا ہیروئین تھیں۔ گیت پردیپ کے اور موسیقی سی راجن کی پیسوں کی کمی کی وجہ فلم کئی بار بنتے بنتے رک گئی۔ ایک موقع پر تو سترام وہرہ نے فلم مکمل کرنے کا ارادہ ہی ترک کردیا تھا کیونکہ اس فلم کے دوران وہرہ کو اپنے گھر کے کئی سامان فروخت کرنے پڑے ۔ فلمساز سر سے پیر تک قرضوں میں ڈوب گیا تھا۔ فلم مکمل ہوئی تو بڑی مشکل سے فروخت ہوئی اور ریلیز ہوتے ہی باکس آفس پر دھماکہ کردیا۔ سنیما گھروں کے باہر سنتوشی ماں کے مندر بن گئے۔ فلم ایسی کامیاب ہوئی کہ ہزاروں کو مالا مال کردیا۔ 22 لاکھ میں بنی اس فلم نے سات کروڑ کا بزنس کیا اسے آخر میں مجبوراً سنیما گھروں سے نکالنا پڑا۔
دل والے دلہنیاں لے جائیں گے: پروڈیوسر یش چوپڑہ اور بحیثیت رائٹر ڈائرکٹر آدتیہ چوپڑہ کی پہلی فلم ’’دل والے دلہنیاں لے جائیں گے‘‘ اب ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں سب سے زیادہ مسلسل 19 سال سے ایک ہی سنیما تھیٹر میں چلنے والی فلم بن گئی ہے۔ یہ تاریخی رومانی فلم 20 اکتوبر 1995ء کو ممبئی کے مراٹھا مندر میں دوسری تھیٹرس کے ساتھ ریلیز ہوئی تھی، لیکن اب یہ ایک ہزار ہفتوں کی کامیاب نمائش کے بعد بھی اس تھیٹر میں چل رہی ہے۔ 12 دسمبر کو اس فلم نے اپنی ریلیز کے 19 سال مکمل کرلئے ہیں۔ فلم میں راج (شاہ رخ خان) اور سمرن (کاجول) کا کردار سب کے لئے یادگار بن گیا لیکن فلم میں امریش پوری، انوپم کھیر، فریدہ جلال، مندیرا بیدی جیسے کرداروں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جتن للت کی موسیقی سے سجے فلم کے آٹھ گیت آج بھی ہٹ ہیں جنہیں آنند بخشی نے لکھے تھے۔ فلم کی لگاتار ایک ہی سنیما گھر میں نمائش ایک غیر معمولی ریکارڈ ہے۔