ماضی میں جب کسی فلم کو ’اے‘ سرٹیفکیٹ مل جاتا تھا تو اس فلم کے بنانے والا اپنا سر پیٹ لیتا تھا۔ ایسا اس لئے ہوتا تھا کہ ’اے‘ سرٹیفکیٹ کی فلموں کو دیکھنے کے دروازے تمام طرح کے ناظرین کے لئے کھلے نہیں ہوتے۔ بالغ افراد کو ایسی فلمیں دیکھنے کی اجازت ملتی تھی۔ لیکن پہلے کی فلموں میں ’اے‘ سرٹیفکیٹ کی فلمیں کبھی کبھی ہی منظرعام پر آتی تھی۔ ماضی کی فلموں پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تب فلموں میں رومانس ، کسنگ سین اور بولڈ سین کافی کم ہوتے تھے اور کہیں اس کی ضرورت پڑتی بھی تھی تو اسے دکھانے کے لئے کسی علامت کا سہارا لیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ اس معاملہ میں بھی بدلائو آیااور اب تو فلموں کو ’اے‘ سرٹیفکیٹ ملنا عام بات سی ہو گئی ہے اور تمام طرح کے ناظرین کے دیکھنے تک ایسی فلمیں کوئی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ فلموں میں بولڈنیس، کسنگ سین اور رومانس کے سین تو بغیر علامت کا سہارا لئے ہی کھلے عام دکھایا جانے لگا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی ہیروئن اپنے جسم کی نمائش کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکتی۔ بلکہ اسے کامیابی کا آسان طریقہ مان لیا گیا ہے اور سنیما کا بڑا پردہ ایڈلٹ فلموں سے سجنے لگا اور ناطرین کی ذہنیت بھی ایسی ہی فلمیں دیکھنے کی بن گئی ہیں۔ فلم میں ہر طرف جسم کا جلوہ زور مانے لگا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ جب فلم کو ’اے‘ سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے تو اس کے بنانے والے کے چہرے پر خوشی کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ’اے‘ سرٹیفکٹ ملنے سے ان کی فلم کو دیکھنے ناظرین زیادہ سے زیادہ آئیں گے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں منظرعام پر آئی مہیش بھٹ کی فلم خاموشیاںکو جب ’اے‘ سرٹیفکیٹ ملا تو ان کے چہرے پر خوشی دیکھی گئی۔ کیونکہ وہ بارہ سال پہلے اپنی بنائی ہوئی فلم جسم کا حال بخوبی جانتے ہیں۔
مہیش بھٹ نے بارہ سال پہلے جب بپاشا باسو کو لے کر فلم جسم بنائی تھی تو اسے دیکھنے کے لئے ناظرین امنڈ پڑے تھے۔ تبھی مہیش بھٹ کو معلوم ہو گیا تھا کہ ہندوستانی سنیما کے ناظرین کا فلمیں دیکھنے کا نظریہ بدل گیا ہے۔ فلم جسم کے بعد سنیما کے پردے پر بولڈ سین کا جو جوار اٹھا اس میں شدت ہی آتی جا رہی ہے۔
نتیجہ یہ کہ ودیا بالن جیسی ہیروئین کو راتوں رات ڈرٹی پکچر جیسی فلم کامیابی کی بلندی پر پہنچا دیتی ہے تو شلپا شکلا جیسی بالکل نئی ہیروئن کو لے کر صرف ڈیڑھ کروڑ میں بنائی جانے والی فلم کو ناظرین دس کروڑ کی کمائی کرنے والی فلم بنا دیتے ہیں ۔آج کے دور میں فلم ساز فلم کو’اے‘ سرٹیفکیٹ ملنے پر خوش ہوتا ہے اور بڑی کمائی کا خواب دیکھتا ہے پھر فلمساز مہیش بھٹ اور ایکتا کپور جیسی شخصیت ہو تو اپنی فلموں میں جان بوجھ کر بولڈ سین ڈالتے ہیں تاکہ سینسر بورڈ کے پاس فلم کو ’اے‘ سرٹیفکیٹ دینے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں بچتا۔ اس سے صاف ہے کہ بولڈنیس آج ہندی فلموں کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ بولڈ سین کے لئے مشہور سنی لیونی جب کپڑے پہن کر بھی فلم میں آتی ہے تو نہ صرف چھا جاتی ہے بلکہ بپاشا باسو جیسی بولڈ ہیروئن کو بھی اپنے نقش قدم پر چلنے کو مجبور کر دیتی ہیں۔ صرف تین سال اور تین فلم پرانی سنی لیونی کے پاس اب پانچ پانچ فلمیں ہیں۔ ایسے میں بھلا سنی لیونی کے نخرے کیوں نہ زیادہ ہوں اور باقی ہیروئنوں پر ایسی فلمیں کرنے کا دباؤ کیوں نہ ہو۔ بہت ساری ہیروئنوں نے بھی اس گیپ کو سمجھا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو سیکس، ہارر، تھرلر ڈرامہ سے بھرپور فلم الون کے لئے بپاشا باسو کو یہ کہنے کو مجبور نہیں ہوناپڑتا کہ الون اب تک کی ان کی سب سے زیادہ بولڈ فلم ہے۔
سنی لیونی نے جب دو ہزار گیارہ میں فلمی سفر کا آغاز کیا تو صرف سال بھر میں ہی جسم -۲ اور اس کے بعد راگنی ایم ایم ایس -۲ کے ذریعہ وہ چھا گئی۔ ان دنوں پردے پر دکھائے جانے والے سین کے پیمانے اس طرح سے بدل گئے کہ تمام ہیروئنیں سنی لیونی کے راستے پر چلنے کو تیار ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ دپیکا پادوکون جیسی ہیروئین کو بھی ماحول کی نزاکت مان کر فائنڈنگ فینی فلم میں سیکس سین دینے کے لئے مجبور ہونا پڑا اور کنگنا رناوت کو بھی شوٹ آئوٹ ایٹ وڈالا میں بولڈ سین دینے سے بچنا آسان نہیں ہوا۔ دو ہزار تین میں آئی فلم ’خواہش‘میں سترہ کسنگ اور بولڈ سین کے لئے ملکہ شیراوت زیادہ سرخیوں میں رہیں۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد بھٹ خیمے کی فلم ’مرڈر‘ میں ملکہ شیراوت نے جو کمال دکھایا اسے ہندی سنیما کے لئے ٹرننگ پوائنٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہیں سے ناظرین کے سامنے بولڈسین پیش کرنے کا دور شروع ہوا۔ ہیروئنوں کے ساتھ ساتھ فلمسازوں میں بھی بولڈ فلمیں بنانے کی دوڑ سی لگ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ دو برس سے ڈرٹی پکچر، کیا کول ہیں ہم، گرانڈمستی، راگنی ایم ایم ایس -۲، ہیٹ اسٹوری، بی اے پاس، جسم -۳، مرڈر -۲، الون جیسی تمام فلمیں آئی اور کامیاب رہیں۔ شرلن چوپڑا، پونم پانڈے، رچا چڈھا، وینا ملک، سرولن چاولہ، شلپا شکلا اور بپاشا باسو کے ساتھ ساتھ ملکہ شیراوت جیسی جسم کی نمائش کرنے والی ہیروئنوں کے لئے مارکیٹ مل گیا۔