ہدایتکار کامران اکبر خان کی فلم ”ہلا گلا “کی کہانی اور اداکاری کے اندازگپی گریوال کی بھارتی پنجابی فلم ”کیری اون جٹا(Carry on Jutta )“ اور گوندا کی فلموں سے متاثر معلوم ہوئی۔ فلم کی کہانی راحیلہ مشتاق شاہ نے لکھی ہے جب کہ اس کے پروڈیوسر حنیف محمد ہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے بعد ہدایتکار کامران اکبر خان کی یہ پہلی فیچر فلم ہے۔فلم کی کہانی کا مزاج خالصتاً طنزومزاح پر مبنی ہے جس میں کہیں کہیں رومانویت کی عکاسی کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ فلم کی کہانی دو لڑکوں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ پر مبنی ہے، ساحل(عاصم محمود)جو ڈون گولڈن(جاوید شیخ) کے بیٹے کا کردار ادا کرتا ہے، اپنے باپ کے کام دھندے سے تنگ ہوتا ہے اور شرافت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب اداس(منیب بٹ) جو دو شادیوں کو نبھا رہا ہوتا ہے اور ہر وقت اس سوچ میں رہتا ہے کہ کہیں اس کا راز افشاءنہ ہوجائے۔ فلم کا سب سے کمزور پہلو اس کی کہانی ہے جس میں کوئی نیا عنصر نہیں تھا جس نے فلم کے اداکاروں کی اداکاری بھی متاثر کی۔فلم کی کہانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ، سین میں تسلسل نہ ہونے کے برابر تھا۔جلدی اورچلاتے چنگھاڑتے ہوئے انداز میں مکالمہ کا تبادلہ بار بارذہن کو پنجابی بھارتی فلموں کی طرف لے جارہا تھا فلم کے دو خاص پہلو ہیں، اس فلم میں گیت بہت عمدہ ہیں جب کہ اس کی کلر گریڈنگ بہترین ہے۔ فلم میں ملبوسات پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی کیونکہ راحت فتح علی خان کے گیت”سرور دے“ پر ملبوسات کا انتخاب کافی بہتر ہوسکتا تھا جو گیت کو سننے کے ساتھ ساتھ اسکی عکاسی کو بھی قابل دید بنا سکتا تھا۔فلم میں تین آئٹم سانگ بھی شامل ہیں، جس میں لاہور سے تعلق رکھنے والی ماڈل و اداکارہ نے رقص کیا۔ فلم کے آغاز میں ”زیرو میٹر“ پر رباب نے، ہلا گلا کے ٹائٹل سانگ پر ریچل نےجب کہ ”تھمکا“ گیت پر ماہ نور نے قص کیا۔ فلم کی کاسٹ میں جاوید شیخ، اسماعیل تارا، غزالہ جاوید، عاصم محمود، منیب، سدرا بتول، اشرف خان، زارا گل،عادل واڈیہ ، مریم انصاری ودیگرشامل ہیں۔ فلم کے ہدایت کار کا کہنا ہے کہ انہوں نے فلم 42 دن میں مکمل کی ہے، فلم کو آزادانہ طور پر مکمل کیا ہے، اگر سینما پر مناسب شوز دئیے گئے تو اچھا بزنس کرلیں گے۔ فلم کو دبئی، لندن اور امریکا میں بھی ریلیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
‘مجھے آسکر کی بالکل پرواہ نہیں’:نصیرالدین شاہ
چندروز قبلہندوستان نے 88ویں آسکر ایوارڈز کی بہترین غیر ملکی فلم کیٹگری کی نامزدگیوں پر غور کیلئے اپنی مراٹھی فلم ’کورٹ‘ کے منتخب ہونے پر جشن منایا تھا۔تاہم، سینئر اداکار نصیر الدین بظاہر زیادہ پرجوش نظر نہیں آتے۔انہوں نے کہا ’مجھےآسکرز کی بالکل پرواہ نہیں۔ کورٹ کا شمار بہترین فلموں میں ہوتا ہےبلکہ یہ حالیہ دور کی سب سے عمدہ فلم ہے لیکن پتہ نہیں کیوں ہم آسکر کی اتنی پرواہ کرتے ہیں‘۔نصیر نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا۔ ’میرے خیال میں کورٹ بنانے والوں کو اسی پر اطمینان ہونا چاہیے کہ ان کی فلم کو ملک کے اندر سراہا گیا اور یہی بات سب سے اہم ہے‘۔ادھر،پاکستان کی اکیڈمی سلیکشن کمیٹی نے اس کیٹگری کیلئے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’مور‘ کا انتخاب کیا ہے۔ مور کے ہدایت کار جامی اس پیش رفت پر بہت خوش ہیں۔