ممبئی:فلم یا رب پر تنازعہ پیدا کرنے کی تام کوشش بامبے ہائی کورٹ نے ناکام کردیں اور فلم کی ریلیزکے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر کے آزادی خیال کو یقینی بنا دیا۔دوسری جانب ۷ فروری کو جب ملک کے سنیما گھروں میں فلم نمائش کیلئے پیش کی گئی تو اسکو خاصی تعریف کی گئی اور ہال کے باہر پہلے سے موجود پریس رپورٹروں نے شائقین سے جب انکا رد عمل معلوم کرنا چاہا تو زیادہ تر فلم دیکھنے والوں کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کچھ افراد اور تنظیموں نے زمین و آسمان سر پر اٹھا کر لوگوٓں اور سماج کو گمراہ کرنے کی سازش کی تھی۔فلم کے مبینہ جن مناظر پر اعتراض کیا گیا وہ پہلے سے ہی موجود نہیں تھے پھر ان پر شور مچا کر سستی مقبولیت حاصل کرنے کی کیوں کوشش کی گئی۔
عروس البلاد بمبئی میں تناؤ اور غیر یقینی صورتحال کے دوران جب فلم ریلیز ہوئی تو علم ہوا کہ بہت سے خدشات کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔شائقین کی ایک بڑی تعداد نے یہ ضرور کہا کہ ایسی فلم وقت کی اہم ضرورت ہے جس کو ہر ہندوستانی کو دیکھنا۔ ۔
ایم ایس فاروقی بھنڈی بازار میں ایک دوکان پر کام کرنے والا نوجوان فلم یارب کے سلسلے میں کہتا ہے کہ ہم کو ڈرایا گیا تھا کہ فلم اسلام اور دینی مدارس کے خلاف ایک گندہ پرو پگنڈہ ہے۔جبکہ اصلیت یہ ہے کہ فلم میں مدارس ہیں ہی نہیں اور جن مولانا کی سازشوں کو پیش کیا گیا ہے اس سے تمام علماء کراب،کی توہین و تضحیک نہیں ہوتی ہے۔جو برا ہے اسکی برائی دکھائی گئی ہے۔رجب علی پائدھونی کے رہنے والا ٹیوشن پڑھانے والا ایک نوجوان اپنے نام نہاد لیڈروں کے خلاف رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دلائیل کے ساتھ فلم کو دیکنا چاہیئے اور قوم کو بے وجہ کے مسائل میں الجھانے کے بجائے اسکو درپیش مسائل کے مکڑ جال سے نکالنے کی ضرورت ہے۔محمد رضوان بوری محلہ میں ایک گاڑی پر چنا بٹاٹا بیچنے والے نے فلم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں انکو یہ فلم ضرور دیکھنا چاہیئے۔ایڈوکیٹ عتیق احمد نے کہا کہ فلم یارب کو پہلے ہی شو میں دیکھا اور اسکے زیادہ تر مناظر حقیقت پر مبنی ہیں مگر فلم تکنیکی اعتبار سے کچھ کمزور ہے۔انہوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ایک گانا مولا جی بہت اچھا ہے مگر اسکو اور اچھے طریقے سے فلمایا جا سکتا تھا۔
محمد افضل پالکھی والا نے فلم یا رب کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہدایتکار نے بہت محنت کی ہے، مکالمے اچھے اور موسیقی دلنشیں ہے مگر اسکے باز مناظر طویل ہیں ۔محمد عباس مغل مسجد کے نزدیک رہنے والے کاظم حسین نے کہا کہ وہ کئی سال بعد فلم دیکھنے گئے تھے فلم یا رب نے انکو کافی متاثر کیا۔ایک بار فلم ضرور دیکھنے والی ہے۔ پالا گلی کے محمد رزاق نے فلم یارب کی کہانی اور اسکے کرداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسکرپٹ میں کرداروں پر کافی محنت کی گئی اور فلمساز اس کوشش میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ہر دلیل کو قران اور اسلامی تناظر میں ثابت کیا جائے۔ مجھے اسلام کی باتیں اس فلم سے نئی معلوم ہوئیں اور میرے علم میں اضافہ ہوا۔
باندرہ ہل روڈ کے رہنے والے جارج ڈیسوزا کا خیال ہے کہ اسلام کی تصویر پاک و صاف ہے اور کسی شخص کی تصویر دوسرے معنی رکھتی ہے تو اس سے دین کے بنیادی اصول کم نہیں ہوجاتے۔ انہوں نے کہ ایک پڑھے لکھے سماج میں کسی بھی بحث سے اپنی بات کو منوایا بھی جاسکتا ہے، تشدد کی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ سماج کے پر طبقہ میں کوئی نہ کوئی مولانا جیلانی ہو سکتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ اسی سماج میں ڈاکٹر مظہر علی خاں جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔
جبیں فاطمہ نے فلم یا رب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ تالاب کی ایک مچھلی ہی پانی کو گندہ کرتی ہے مگر سماج میں سب کا بھلا چاہنے والوں کی بری تعداد بہرحال موجود ہے۔رخسانہ صدیقی کا تعلق جوگیشوری سے ہے اور وہ چھوٹ بچوں کو پڑھا کر اپنا گھر چلاتی ہیں۔رخسانہ کے مطابق ہمارا اختلاف سماج میں زیادتیاں کرنے والوں سے ہوسکتا ہے ملک سے نہیں۔ہم کو کسی کو حقیقی ہندوستانی ہونے کا ثبوت نہیں دینا ہے،مگر نوجوانوں کو خود ان منفی سرگرمیوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
مدنپورہ کے حاجی عبد الباسط ایک ڈیری چلاتے ہیں انکو خیال ہے کہ اس فلم کیا تھا جو اتنا شور مچای اگیا ہم نے رات کا شو دیکھا اور ہم کو اطمنان ہوگیا کہ مہیش بھٹ صاحب کی کمپنی نے فلم یا رب کو ریلیز کیلئے پیش کیا۔ مہیش بھٹ صاحب کبھی بھی سیکولر ازم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے۔
خالد بھائی زری والا ممبرا میں کپڑوں کا کام کرتے ہیں اور فلم دیکھنے کے بڑے شوقین ہیں ، فلم یارب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں برائی کیا ہے کہ ہم خود اپنا احتساب کریں ۔چند افراد کی وجہ سے اگر پوری قوم بدنام ہو رہی ہے تو ہم ایسی کالی بھیڑوںکی پہچان کر اپنے سماج سے الگ کردیں۔ انہوں نے فلم کی کہانی اور مکالموں کی بہت تعریف کی۔
یاری روڈ کے رہنے والے فخر الحسن نے فلم کو ایک مثبت اور جراتمندانہ قدم بتاتے ہوئے کہا کہ پوری قوم قومی جذبے سے سرشار ہے ۔دو ایک فرد ہی پورے طبقے کی بدنامی کراتے ہیں ۔انہوں نے کہا فلم کے مناظر میں چابکدستی کی وجہ سے دیکھنے والا مبہوت ہوجاتا ہے اور دوسرے منظر کا شدت سے انتظار کرتا ہے۔یہ ایک کامیاب فلم ہے جس پر شور مچانے سے قبل دیکھا جانا ضروری تھا۔
املیش کمار ورما نے بتایا کہ فلم یا رب ایک کھلے ذہن کے لوگوںکی فلم ہے اور تنگ سے تنگ ذہن والے کو یہ فلم دیکنا چاہئے تاکہ حقیقت سمجھ سکے۔انہوں نے کہا دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،وہ کسی بھی طبقے اور کسی بھی جگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔