اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے مقبوضہ عرب شہروں میں ناکوں اور چوکیوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے، جن پرمتعین قابض فوجی راہ چلتے فلسطینیوں کو ہراساں کرنا اپنی قومی اور پیشہ وارانہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
گلی کوچوں میں پھیلے ان ناکوں پرمستزاد بین الاضلاع راہداریاں نہتے اورغریب فلسطینیوں کی لوٹ کھسوٹ کے اڈے ثابت ہو رہی ہیں۔ انہی راہداریوں میں مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مرکزی شہر رام اللہ کے درمیان”قلندیا گذرگاہ” بھی شامل ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اس گذرگاہ سے روزانہ ہزاروں فلسطینی دونوں طرف آتے جاتے ہیں۔ کراسنگ پوائنٹ پر تعینات صہیونی فوجیوں نے طویل عرصے سے فلسطینی راہ گیروں کو تنگ کرنا، انہیں حراست میں لینا اور کئی کئی گھنٹے بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھنا اورجرمانوں کی آڑ میں انہیں لوٹنا اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی سمجھ رکھا ہے۔ یہودی فوجیوں کے اس ظالمانہ طرزعمل سے فلسطینی سخت نالاں ہیں۔
نہتے فلسطینی اسرائیلی مظالم کا مقابلہ تو نہیں کرسکے ہیں لیکن انہوں نے صہیونی فوج کی اس غنڈہ گردی اوراپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے اظہار کےلیے سوشل میڈیا کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ باذوق فلسطینی نوجوانوں نے”قلندیہ سے گذرنے کے طور طریقے” کے عنوان سے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ”فیس بک” پرایک صفحہ بنایا گیا ہے۔ یہ صفحہ قلندیا گذرگاہ کے راہ گیروں کے دُکھ درد بانٹنے اور ان ساتھ پیش آنے والے مظالم کے اظہار کا ایک “فورم” بنتا جا رہا ہے کیونکہ روزانہ سیکڑوں فلسطینی اس گذرگاہ پر پیش آنے والے واقعات اپنے ساتھیوں سے شیئرکرتے ہیں۔
تلاشی کے نام پر صہیونی فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو “قلندیا” راہ داری پر گھنٹوں کھڑے کرکے ان کی شناخت پریڈ کی جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی ضروری کام سے دوسرے شہرمیں جانے والوں کو تمام دن اسی گذرگاہ پرصہیونی فوجیوں کے سوال جواب میں گذارنا پڑتا ہے۔ اپنے اسی طویل انتظار کی کیفیت کے اظہار کے لیے انہوں نے فیس بک پیج کی ٹائم لائن پر یہ جملہ لکھ رکھا ہے کہ “آپ کی عمر بہت مختصر، مگر یہاں راہدادی پرقیام طویل ہو سکتا ہے، اس لیے آپ نے اسی عمر میں یہاں سے گذرنا بھی ہے”۔ یوں فلسطینی متاثرین اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گذرگاہ سے گذرتے گذرتے عمرطبعی ہی ختم ہوجائے۔
“فیس بک” کے صفحے کو مسلسل اپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے، جس سے اب یہ صفحہ اس گذرگاہ سے گذرنے والوں کے لیے رہ نمائی کا سامان بھی مہیا کررہا ہے۔ مثلا وہاں سے گذرکے آنے والے بتاتے ہیں کہ گذرگاہ کا ماحول کیسا ہے؟ ایسا آر پار آمدورفت بند ہے، رش زیادہ یا کم ہے، ابھی گذرنا آسان ہے یا مشکل ہے اورچوکی پرمتعین اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں کا رویہ کیسا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
فیس بک پر نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی نوعیت کا یہ ایک منفرد صفحہ ہے جس کے مطالعے سے فلسطینیوں کی روز مرہ زندگی اوراسرائیلی رویے کی عکاسی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اگرچہ بیت المقدس اور رام اللہ کےدرمیان چند کلومیٹر ہی کا فاصلہ ہے لیکن اسرائیلی سختیوں کے باعث یہ بھی کئی دنو کی مسافت بن چکا ہے۔