پٹنہ 14 اکتوبر، (یو این آئی) بہار میں مسلم۔یادو(ایم وائی) ووٹ بینک کے سہارے ڈیڑھ دہائی تک راج کرنے والے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے صدر لالو پرساد یادو کے لئے اس بار کے اسمبلی انتخابات میں ‘کرو یا مرو ’ کی صورتحال ہے اور ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یادو ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسٹر یادو نے تقریبا نصف سیٹیں یادو امیدواروں کے لئے وقف کر دی ہیں۔انہوں نے اس بار انتخابی میدان ایسا سجایا ہے کہ ان کے بنیاد ی ووٹ بینک پر کوئی نظر نہ ڈال سکے اور نہ ہی یدو خاندان کو کسی دوسرے متبادل کی ضرورت پڑے ۔جنتادل (یونائیٹڈ) کی قیادت میں مہاگٹھبدھن بنا کرراشٹریہ جنتا دل اور کانگریس تمام 243 سیٹوں پرالیکشن لڑ رہی ہیں۔مسٹر یادو نے یدو خاندان کے ووٹ بینک کو محفوظ کرنے کے لئے تین طرف سے قلع بندی کی ہے ۔ اپنے یادو ووٹ کی قلع بندی، اعلی ذات کو نظر انداز اور مسلم سیٹوں کے لئے خاص حکمت عملی۔مسٹر یادو کو احساس ہے کہ اس بار ان کے بنیاد ی ووٹ بینک پر بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) سمیت کئی جماعتوں کی نظر ہے ۔
لوک سبھا انتخابات کے وقت سے ہی بی جے پی مسٹر یادو کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔بی جے پی کا اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما نند کشور یادو کو آگے بڑھانا، راشٹریہ جنتا دل صدر یادو کے قریبی رہے مسٹر رام کرپال یادو کو پناہ اور پھر ایم پی بھوپندر یادو کو پارٹی کابہار انچارج بنانا اور اب اسمبلی کے انتخابات میں 22 امیدواروں کو اتارنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔وراثت کے معاملے پر جن ادھیکار پارٹی (جے اے پی) کے صدر اور ایم پی راجیش رنجن عرف پپو یادو بھی راشٹریہ جنتا دل کے صدر مسٹر یادو کو کم پریشان نہیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح آر جے ڈی کے صدر مسٹر یادو کے بڑے سالے انروددھ پرساد عرف سادھو یادو نے جہاں غریب عوام پارٹی بنا کر تمام سیٹوں پر امیدوار کھڑے کردے ئے ہیں وہیں آر جے ڈی صدر کے چھوٹے سالے سبھاش یادو نے جے اے پی میں شامل ہو کر ان کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے ۔مہاگٹھ بندھن سے سماجوادی پارٹی (ایس پی) کے صدر ملائم سنگھ یادو کا پیچھا چھڑانا اور اب ایس پی کی قیادت میں چھ جماعتوں کا تیسرامحاذ بنا کر تمام سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرنا ان کے لئے ایک طرح سے صدمہ ہی ہے ۔راشٹریہ جنتا دل کے صدر مسٹر یادو نے سب سے زیادہ ہوشیا ری اپنے بنیاد ی ووٹ بینک کو بچانے میں دکھائی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسے محفوظ رکھ کر ہی وہ کسی بھی پارٹی سے مقابلے کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آر جے ڈی سربراہ نے پچھلی بار کے مقابلے میں اس بار مسلمانوں کی حصہ داری کم کر دی ہے لیکن یہ بھی ایک حکمت عملی ہے ۔راشٹریہ جنتا دل صدر کی یہ کوشش ہے کہ بی جے پی مسلم اثر والے علاقوں میں ہندوؤں کی محاذ آرائی میں کامیاب نہ ہو۔
30 سے 40 فیصد اقلیتی آبادی والے علاقوں میں مسلم امیدوارکے خلاف لہر بی جے پی کے حق میں جانے کا خدشہ تھا۔ اسی کے پیش نظر راشٹریہ جنتا دل صدرنے ان علاقوں میں بی جے پی کی چال کو بڑی چالاکی سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔نسلی مردم شماری کے معاملے پر مرکز کی مودی حکومت کے خلاف زوردار طریقے سے آوازاٹھانے والے مسٹر یادو کو یہ احساس ہے کہ ان کے لئے اونچی ذات کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔راشٹریہ جنتا دل کی فہرست دیکھنے سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ مسٹر یادو نے بھومی ہار، برہمن، راجپوت اور کائستھ کو ترجیح نہیں دی۔ راشٹریہ جنتا دل میں دو راجپوت، ایک برہمن اور ایک کائستھ کو ہی موقع ملا ہے ۔مسٹر یادو جب پہلی بار 1990 میں اقتدار میں آئے تھے تب بہار میں 63 یادو ممبر اسمبلی تھے ۔اس کے بعد 1995 میں مختلف جماعتوں سے 86 رکن اسمبلی جیت کر آئے تھے لیکن اس کے بعد یہ تعداد آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ سال 2010 میں تو مختلف جماعتوں سے صرف 39 یادو اسمبلی منتخب ہوکر آئے ۔راشٹریہ جنتا دل کے صرف 10 یادو امیدوار ہی جیت سکے ۔جے ڈی یو سے 19 اور بی جے پی کے ٹکٹ پر آٹھ یادو منتخب ہوئے تھے ۔اس سے راشٹریہ جنتا دل کے صدر کو آہستہ آہستہ یہ احساس ہو گیا کہ یادو ووٹر متبادل کی تلاش میں ہیں۔