بیروت۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے پڑوس میں شامی پناہ گزین خواتین کے لیے کاروباری ضرورتوں کی خاطر کھا نے تیار کرنے کی تریننگ ورکشاپ کے دو ماہ مکمل ہو گئے ہیں ۔ شام کے مختلف حصوں سے پناہ کیلیے یہاں آنے والی خواتین یہاں اپنی علاقائی ڈشوں کے بارے میں معلومت اور تجربات ایک دوسری کے ساتھ شئیر کررہی ہیں، تاکہ انہیں روزگار فراہم ہو سکے ۔
شام کے مختلف صوبوں اور علاقوں سے آنے والی ان پناہ گزین خواتین کو ان کی جلاوطنی نے باہم ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے کہ ان کے دکھ سکھ سانجھے ہو گئے ہیں۔ انہیں کھانوں کی تربیت کیلیے قائم کی گئی ٹریننگ ورکشاپ سے امید ہے کہ دیار غیر میں ان کا روائتی شامی باورچی خانہ ان کی آمدنی کا ذریعہ بن جائے گا۔
شامی خواتین کے لیے اس تربیتی ورکشاپ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے لبنان کے ہوٹل اور مسیحی مشنری ادارے کاریتاس کی مدد سے کیا ہے۔ اس لیے یہ ورک شاپ کاری تاس کے زیر ملکیت عمارت میں ہی جاری ہے۔ جہاں گندم کو انار کے دانوں کے ساتھ بگھار کر روائتی شامی کھانوں کی تیاری کی جاتی ہے۔
یہاں موجود سکارف اوڑھے ایک نوجوان شامی خاتون جس نے کئی ماہ پہلے شام سے نقل مکانی کی تھی۔ کا کہنا ہے کہ اس کا قصبہ مزے کے کھانوں کے حوالے سے مشہور تھا لیکن اب اسے جنگ زدہ علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس خاتون نے کہا ” میں نے جنگ سے پہلے اپنے علاقے جسرالشوغور میں خوب اچھی زندگی گذاری ہے، میں خوشی اور غمی کے موقعوں پر میں روائتی مذہبی گیت گایا کرتی تھی۔”
اس شامی خاتون نے اگرچہ ایک مذہبی تعلیمی ادارے سے تعلیم پائی ہے لیکن وہ شام میں ایک فارمیسی میں کام کرتی تھی۔ لیکن اب مہاجر کیمپ میں ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہے۔ اس کا شوہر زیابیطس کا مریض ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری نہیں کر سکتا۔ اس لیے کھانے بنانے کیلیے یہ تربیتی ورکشاپ انتہائِی اہم ہے۔
شامی پناہ گزین خواتین کے لیے یہ تربیتی ورکشاپ ائندہ دنوں روزگار اور آمدنی کی امید بن رہی ہے۔ تربیت کیلیے آنےوالی اکثر گھریلو خواتین ہیں جو اس کام کو اپنے کلیے مفید خیال کر رہی ہیں۔
ایک مسیحی شامی خاتون بھی اس ورکشاپ سے استفادہ کرنے والوں میں شامل ہے اس کہنا ہے کہ اس سے پہلے وہ شام کے تمام علاقوں کے روائتی کھانوں سے آگاہ نہ تھی، بہت ساری ڈشیں اس کیلیے نئی ہیں۔