نیویارک، 13 مئی (رائٹر) لندن کے امام ابوحمزہ نے امریکی عدالت کے سامنے قبول کیا ہے کہ 1998 میں جب یمن جنگجووں نے مغربی سیاحوں کو اغوا کیا تھا اس سے کئی ماہ قبل انہوں نے اس سٹیلائٹ فون فراہم کئے تھے اور اغوا کے واقعہ کے محض تین گھنٹہ بعد ان کے لیڈر سے بات کی تھی۔ تاہم اپنے وکیل کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے اصرار کیا کہ انہیں اغوا کی واردات کے بارے میں پیشگی علم نہیں تھا نیز کہا کہ جب انہیں اس بارے میں معلوم ہوا تو انہیں لگا ان کے ساتھ “غداری” ہوئی ہے۔انہوں نے دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ کے دوران کہا “معصوم لوگوں کونشانہ نہیں بنانا تھا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں ہمیشہ اپنی تقاریر میں یہ بات کہتا ہوں۔
امریکہ استغاثہ نے کانے اور ہاتھ کئے امام پر جنگجووں کی مدد کرنے کا الزام لگایا ہ
ے اور یہ بھی کہ انہوں نے جہادی تربیتی کیمپ قائم کرنے کی غرض سے دو افراد کو اوریگون بھیجاتھا نیز القاعدہ اور طالبان کی مدد کے لئے اپنے پیروکار اور پیسہ افغانستان روانہ کیا تھا۔مصر نژاد 56 سالہ ابوحمزہ نے پیر کو اپنی گواہی میں قبول کیا کہ وہ اپنے وعظ کے دوران اشتعال انگیز باتیں نہیں کہتے ہیں مگر اس بات کو ماننے سے انکار کردیا کہ انہوں نے کوئی جرم کیا ہے۔آج سرکاری وکلا ان سے جرح کریں گے کل انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان یمنی باغیوں کے ترجمان تھے جو اپنی حکومت کو گرانا چاہتے تھے مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ کسی کو یرغمال بنانے والے ہیں۔جب اغوا کے تین گھنٹہ بعد جنگجووں کے لیڈر ابو حسن کا فون آیا تو ابوحمزہ نے کہا کہ انہوں نے جنگجووں کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔
ابوحمزہ نے بتایا کہ انہوں نے فون پر مزید وقت خریدا تاکہ مغویہ افراد اپنے کنبہ سے رابطہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا “میں یمنی حکومت کے ساتھ جنگ میں ہوں۔ مگر یہ جنگ لڑنے کا طریقہ نہیں ہے۔ جیوری نے پچھلے ہفتے دو مغویہ افراد کی گواہی لی تھی جن میں سے ایک میری کوئن نے کئی سال کے بعد ابوحمزہ سے انٹرویو کیا تھا جس کے دوران انہوں نے کہا تھا “اغوا اسلامی طور پر جائز تھا” جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ابو حمزہ نے پچھلے ہفتہ یہ بھی کہا تھا کہ وہ القاعدہ کے سابق لیڈر اسامہ بن لادن سے محبت رکھتے تھے جب ان کے وکیل نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو کہا کہ “بن لادن قاعدے قانون کے پابند نہیں تھے ان کی حرکتوں سے افغانوں کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔ اس کے لئے میں انہیں ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
ابوحمزہ نے پچھلے ہفتہ عدالت کو بتایا تھا کہ دو دہائی قبل پاکستان میں ایک اتفاقیہ دھماکہ ہوا تھا جس میں وہ اپنے ہاتھ اور ایک آنکھ کھو بیٹھے تھے جبکہ برطانوی افسران یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مجاہدین کے ساتھ سوویت فوج سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تھے۔استغاثہ نے ابوحمزہ کی تقاریر کے کئی ٹیپ سنائے ان میں سے ایک میں انہوں نے امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی تعریف کی تھی۔ انہوں نے کافی سخت و درشت زبان استعمال کی ہے۔وکیل نے ابوحمزہ سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے ان میں سے کوئی جرم کیا ہے جن کے الزام ان پر بھی لگائے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا “ہرگز نہیں”۔