دیہی علاقوں میں رفعِ حاجت کے لیے غیرآباد مقامات کا رخ کرنے کا چلن عام ہے
ساتھ مرنے جینے کی قسمیں
کچھ چیزیں جو آسانی سے بدل سکتی ہیں لیکن کبھی بدلتیں نہیں وہ آپ کو یہ سوچنے پر مجبور تو کرتی ہوں
گی کہ بہت سے لوگ تبدیلی سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟
ہندوستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے میں ’جنگل جانے‘ کے رواج کو ہی لیجیے۔
ملک کے دیہی علاقوں میں اگر آپ سے جنگل جانے کا ذکر کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو شکار پر جانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔
مقامی بول چال میں مراد صرف یہ ہے کہ گھر میں بیت الخلا نہیں ہے۔ اس ملک کی تقریباً آدھی آبادی بغیر ٹوائلٹ کے ہی گزارا کرتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ملک میں بہت غربت ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ صرف غربت کی وجہ سے ہی آدھے سے زیادہ گھروں میں ٹائلٹ نہیں ہیں۔
بڑی تعداد میں ایسے گھرانے بھی ہیں جہاں یا تو بیداری کی کمی ہے یا بس پرانے طور طریقے بدلنے میں لوگوں کی دلچسی نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر دلی کے لال قلعے کی فصیل سے اپنی پہلی تقریر میں یہ امید ظاہر کی کہ ایک سال کے اندر ملک کے ہر سکول میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ ٹوائلٹ ہوگا لیکن شاید انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہیے تھا کہ یہ ٹوائلٹ قابل استعمال بھی ہونے چاہییں۔
دہلی جیسے شہر میں بھی اگر آپ کو پبلک ٹوائلٹ استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو اس تجربے کو آپ آسانی سے نہیں بھولیں گے۔
شاید راستہ اترپردیش کی چھ نئی نویلی دلہنوں نے دکھایا ہے۔ ان کی سسرال میں ٹوائلٹ نہیں تھے اس لیے وہ اپنے میکے لوٹ گئی ہیں، اس وعدے کے ساتھ کہ جب ٹوائلٹ بن جائیں گے تو وہ واپس آجائیں گی!
چھ دلہنیں ٹوائلٹ بننے پر سسرال واپس آنے کے وعدے کے ساتھ میکے چلی گئیں
اس سے پہلے دوسری ریاستوں میں بھی کئی لڑکیاں یہ غیر معمولی قدم اٹھا چکی ہیں۔
جنگل راج ختم کرنے کا شاید یہ ہی سب سے اچھا طریقہ ہے۔ ساتھ مرنے جینے کی قسمیں تو کھائی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ گھر میں ٹوائلٹ ہونا چاہیے!
سچے ہندوستانی بننے کا فارمولہ
جسٹس مارکنڈے کاٹجو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں اور برسوں پہلے انہوں نے ایک حیرت انگیز فیصلہ سنایا تھا۔
جھگڑا ایک سکول اور ایک طالب علم کے درمیان تھا۔ سکول کی پالیسی تھی کہ طالب علم داڑھی نہیں رکھ سکتے، طالب علم کا موقف تھا کہ یہ اس کا مذہبی فریضہ اور آئینی حق ہے اس لیے وہ داڑھی نہیں منڈوائے گا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ اگرچہ وہ خود بہت سیکولر سوچ کے مالک ہیں لیکن ’ملک کو طالبان کے رنگ میں رنگنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘ عدالت نے بعد میں یہ فیصلہ بدل دیا تھا۔
گذشتہ کچھ ہفتوں سے جسٹس کاٹجو اعلی عدلیہ میں بدعنوانی کا پردہ فاش کرنے میں لگے ہوئے تھے اور اب انہوں نے ملک کے سوا ارب عوام کو بتایا ہے کہ وہ ’سچے ہندوستانی‘ کیسے بن سکتے ہیں۔
جسٹس کاٹجو کے خیال میں سچے ہندوستانی بننے کے لے ذات پات کی تفریق کا خاتمہ کلیدی ہے
ان کے مطابق ہندوؤں میں جب اونچی اور نیچی ذاتوں کے درمیان تفریق ختم ہو جائے گی اور آپس میں شادیاں کرنے پر کوئی پابندی یا دشواری باقی نہیں رہے گی تو ہندو سچے ہندوستانی بن جائیں گے۔
مسلمانوں کے لیے اضافی شرط یہ ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد کو مسلم پرسنل لا کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی کیونکہ یہ نظام عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
مائی لارڈ، داڑھی کے بارے میں آپ کی رائِے غلط تھی اور آپ نے اس کے لیے معذرت بھی کی تھی، ذات پات کے فرق اور آپس میں شادیوں کے بارے میں آپ کا بنیادی خیال تو درست ہے لیکن صرف سچا یا اصلی ہندوستانی بننے کے لیے کوئی اپنے سماجی طور طریقوں کو آسانی سے نہیں بدلے گا۔
یہ تبدیلی وقت اور تعلیم کے ساتھ ہی آئے گی، آپ بھی سماجی تغیر کے لیے اپنی مہم کا آغاز ٹوائلٹس سے ہی کیجیے اور اس تجویز پر غور فرمائیے کہ شادی کے لیے اگر پورے ملک میں نہیں تو پہلے مرحلے میں چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں ٹائلٹ کی شرط لازمی کر دی جائے!
اتر پردیش کی چھ نئی دلہنوں کے گھر میں تو ٹائلٹ بن رہے ہیں لیکن تقریباً ساٹھ کروڑ لوگ اس کے بعد بھی جنگل کا ہی رخ کریں گے۔
کرکٹ کی خواتین
ہندوستان کی کرکٹ ٹیم جب ہارتی ہے تو اخبارات اور ٹی وی چینل خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔
انگلینڈ کے ہاتھوں لگاتار تین ٹیسٹ میچوں میں شکست کے بعد ٹائمز آف انڈیا نے کرکٹ بورڈ کو ایک انوکھی تجویز دی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ بورڈ کی بے توجہی کی وجہ سے خواتین کی قومی ٹیم آٹھ سال میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہی تھی لیکن پھر بھی اس نے انگلینڈ کو اسی کی سر زمین پر ہرا دیا۔
لہٰذا مردوں کی ٹیم کو آخری تین میچوں کے لیے جو رقم دی جانی تھی وہ سزا کے طور پر ان کے بجائے خواتین کے حوالے کر دی جانی چاہیے!
اگر ایسا ہوا تو کیا دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کی شکست کی دعا نہیں مانگیں گی؟