لکھنؤ(نامہ نگار)۔لکھنؤ یونیورسٹی میں برخاست چہارم درجہ ملازم پروین کی خودکشی کے پیچھے لکھنؤ یونیورسٹی انتظامیہ بھی کٹہرے میں کھڑا نظر آرہاہے ۔ پروین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جس الزام کے تحت اسے برخاست کیا گیا تھا اس میں کوئی سچائی بھی نہیں تھی معاملہ کی جانچ رپورٹ ۳ماہ قبل جانچ افسر نے لکھنؤ یونیورسٹی انتظامیہ کو سونپ دی تھی ۔رپورٹ میں پروین کو کلین چٹ دی گئی ہے اس کے باوجود اسے بحال نہیں کیا گیا ۔ وہیں دوسری جانب لکھنؤ یونیورسٹی کے ترجمان این کے پانڈے کا کہنا ہے کہ فی الحال انہوں نے جانچ رپورٹ نہیں دیکھی ہے اس لئے وہ اس معاملہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر متوفی کے وارثین نوکری کے لئے درخواست دیتے ہیں تو متوفی وارثین کوٹے سے اسے ضوابط کے تحت نوکری کے لئے کوشش ک
ی جائے گی ۔ بتاتے چلیں کہ لکھنؤ یونیورسٹی میں برخاست ملازم پروین کو اس کے والد سہج رام کی موت کے بعد نوکری ملی تھی ۔
تقریباً ایک برس قبل اس نے اپنے دوست سے موٹر سائیکل کہیں جانے کے لئے لی تھی ۔واپس آنے میں تاخیر ہوگئی تھی اس کو لے کر دوست سے جھگڑا ہواتھا اس کے بعد پروین پر چھیڑ خانی کا الزام لگا دیا گیا ۔ لکھنؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے جلد بازی میں اسے برخاست کردیا ۔ پروین لکھنؤ یونیورسٹی انتظامیہ سے فریاد کرتارہا کہ وہ بے قصور ہے لیکن کسی کا دل نہیں پسیجا ۔اس کے بعد جس لڑکے سے جھگڑا ہواتھا اس نے پروین کے درد کو سمجھا ۔ اور اسے تحریر میں لکھ کردیا کہ وہ اپنا الزام واپس لیتا ہے ۔ یہ تحریری رپورٹ لکھنؤ یونیورسٹی کو سونپ دی گئی۔اس کے بعد جانچ بھی ہوئی اور تقریباً تین ماہ قبل جانچ افسر نے پروین کو قصور سے پاک کرتے ہوئے اس کی رپورٹ لکھنؤ یونیورسٹی انتظامیہ کو دے دی ۔ لیکن اس کے باوجود اسے بحال نہیں کیاگیا ۔ اتنا ہی نہیں پروین کو یونیورسٹی انتظامیہ نصف تنخواہ بھی دیتا تھا ۔ملازمین کے دباؤ پر ابھی ایک ماہ قبل اس نے کچھ تنخواہ دی لیکن آگے وہ بھی نہیں دینے پر بضد تھا اسی وجہ سے پروین ڈپریشن میں چلا گیا اور اس نے موت کو گلے لگا لیا۔