دولت اسلامی عراق وشام (داعش) کے جنگجوؤں نے اب لیبیا میں بھی اپنی فاتحانہ یلغار کا آغاز کردیا ہے اور انھوں نے ساحلی شہر سرت میں ایک جامعہ پر قبضہ کر لیا ہے۔
اس جامعہ کے ایک استاد اور سرت کے مکینوں نے داعش کی جنگجوؤں کی اس نئی یلغار کی تصدیق کی ہے اور ان کے جامعہ پر قبضے سے چندے قبل ہی دارالحکومت طرابلس پر قابض اسلامی جنگجو گروپوں پر مشتمل فجر لیبیا نے سرت میں امن وامان کی بحالی کے لیے مسلح یونٹ بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر نقاب مسلح افراد کی تصاویر جاری کی گئی ہیں جو پک اپ ٹرکوں پر سوار ہیں اور ان پر طیارہ شکن توپیں بھی نصب ہیں۔انھوں نے داعش کے
پرچم اپنی ان گاڑیوں پر آویزاں کررکھے ہیں۔
سرت لیبیا کے سابق مطلق العنان صدر مقتول کرنل معمر قذافی کا آبائی شہر ہے۔سنہ 2011ء میں ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے جاری خانہ جنگی سے داعش نے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے جنگجوؤں نے شام اور عراق سے لیبیا میں دراندازی شروع کررکھی ہے اور وہ وہاں ٹھکانے بنا رہے ہیں۔
اس شہر میں مختصر وقت کے لیے پہنچنے والے اے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ فجر لیبیا اور داعش کے جنگجو اب تک ایک دوسرے سے ایک فاصلے پر رہ رہے ہیں اور براہ راست ان کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیں ہوئی ہے۔
گذشتہ ہفتے داعش کے جنگجوؤں نے سرت میں سرکاری ریڈیو اسٹیشن اور متعدد سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا۔انھوں نے گذشتہ اتوار کو سرت سے ہی اغوا کیے گئے اکیس قبطی عیسائی مصریوں کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں انھیں داعش کے جنگجوؤں نے بے دردی سے ذبح کردیا تھا۔
اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد مصر کے لڑاکا طیاروں نے لیبیا کے مشرقی شہر درنہ میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی اور لیبیا اور مصر نے بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں خانہ جنگی کا شکار اس ملک پر عاید اسلحے کی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تا کہ سرکاری فوج کو جہادیوں کے خلاف لڑائی کے لیے مضبوط بنایا جاسکے اور انھیں درکار اسلحہ اور جدید آلات مہیا کیے جا سکیں۔