مخالف گروہوں کا سب سے زیادہ نشانہ ملک کے ہوائی اڈے اور تیل کی تنصیبات ہیں
اطلاعات کے مطابق اسلامی شدت پسندوں نے لیبیا کے وسطی علاقے میں واقع تیل کی دو تنصیبات پر قبضہ کر لیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ الباہی اور المبروک میں آئل فیلڈ کی حفاظت پر مامور سکیورٹی فورسز کودفاع کے لیے ناکافی اسلحے کی وجہ سے شدت پسندوں کے حملے کے بعد
شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
تیل کی صنعت کی حفاظت سے متلعق محکمے کے ترجمان کرنل علی الحسّی کے مطابق شدت پسند تیل کی دو تنصیبات پر قبضے کے بعد اب الدھرا نامی آئل فیلڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے قبضے میں جانے والے ان علاقوں کو چند ہفتے قبل پرتشدد کارروائیوں اور کم درآمدات کی وجہ سے بند کیا جا رہا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ المبروک میں شدت پسندوں کی جانب سے حملے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوئےتھے۔
کرنل علی الحسّی کے مطابق تیل کی تجارت کے لیے السدرہ نامی بندرگاہ کی برآمدات کے شعبے پر شدت پسندوں نے ملیشیا کے ذریعے ناکام فضائی حملہ کیا۔
عالمی برادری کی حمایت یافتہ حکومت کے ماتحت ملکی فضائیہ کے سربراہ نے بتایا ہے کہ طرابلس کے متیگا نامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا گیا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
حکومتی کنٹرول
لیبیا میں بین الاقوامی حمایت یافتہ وزیراعظم عبداللہ التھنی کی حکومت کے پاس طرابلس سمیت ملک کے تین اہم علاقوں کا کنٹرول ہی نہیں اور پارلیمنٹ تبروک میں قائم ہے۔
یاد رہے کہ لیبیا میں لڑائی میں فضائی اڈوں اور تیل کی تنصیبات کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسلامی شدت پسندوں اور ملیشیا کے الحاق سے قائم لیبیا ڈان نے گذشتہ برس طرابلس پر قبضہ کیا تھا اور وہاں اپنی انتظامیہ قائم کی تھی۔
ادھر اقوامِ متحدہ لیبیا میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرنے کے لیے کوشاں ہےجو 2011 میں ملک کے سابق سربراہ کرنل معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے جاری ہے۔
لیبیا کے مشرقی علاقوں میں کئی شدت پسند تنظمیں اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں اور ان میں سے بعض نے گذشتہ شال دولتِ اسلامیہ کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا تھا۔
لیبیا کی منتخب حکومت ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے تین شہروں کا کنٹرول کھو چکی ہے۔
ملک کا دوسر بڑا شہر بن غازی اسلامی شدت پسندوں کے قبضے میں ہے اور بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی پارلیمنٹ اب تروک میں قائم ہے۔