لیبیا کے عبوری سربراہ علی زیدان جنہیں مبینہ طور پر جمعرات کی صبح ایک ہوٹل سے اغوا کر لیے جانے کی خبر سامنے آئی اور بعدازاں لیبیا کی وزارت انصاف نے سرکاری طور پر تصدیق کی تھی، انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ یوں چند گھنٹوں میں اغوا کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔
اس سلسلے میں سرکاری طور پر پہلے مرحلے میں مبینہ مغوی وزیراعظم کی خیریت اور صحت کی تصدیق کی گئی اور اس بات کا باضابطہ اعلان کیا گیا کہ اغوا کار کوئی اور نہیں بلکہ وزارت داخلہ سے وابستہ سابقہ باغی ہیں، جنہیں مبینہ طور پر لیبیا کے پراسیکیوٹر کی ہدایت پر وزیراعظم علی زیدان کو حراست میں لیا گیا ہے۔
سرکاری طور پر ان اطلاعات کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد ایک جانب اس ہائی پروفائل اغوا کی گتھی سلجھ گئی ہے وہیں کئی نئے سوالات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
واضح رہے اس سے پہلے اس واقعے کو القاعدہ کمانڈر کی حالیہ گرفتاری کے تناظر میں دیکھا جانے کا امکان تھا لیکن اب اس واقعے کا تعلق انہی غیر مسلح سکیورٹی اہلکاروں سے جڑ گیا ہے۔ جنہوں نے چند روز قبل وزیر اعظم کے دفتر پر قبضہ کیا تھا۔
وزارت داخلہ کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علی زیدان کو وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے کے شعبے اینٹی کرائم میں رکھا گیا تھا اور انہیں لیبیا کے تعزیراتی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، تاہم لیبیا کے پراسیکیوشن کے محکمے نے ”العربیہ ” کے ذریعے ان خبروں کی تصدیق نہیں کی ہے، کہ یہ گرفتاری اس کے حکم سے ہوئی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق علی زیدان کو خصوصی حفاظت میں حکومتی دفاتر کی طرف لے جانے کے بعد ان کی رہائی کی خبر سامنے آ گئی ہے۔