(منظور بہرائچی)
ہندوستانی فلم انڈسٹری میں بعض ایسے فنکار ہوئے ہیں جن کے فن کی سر بلندی پر ردائے کہکشاںبھی ناز کرتی ہے۔ ان ہی فنکاروں میں ایک فنکار ایسا ہے جسے موسیقی کے شائقین محمد رفیع کے نام سے جانتے ہیں۔
۲۴دسمبر۱۹۲۴ء کو اس دار فانی میں تشریف لانے والے
صدی کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو آج پورے ۳۴سال ہم سے جدا ہئے ہو گئے ہیں مگر وہ اپنے سمر انگیز نغموں کی بدولت آج بھی اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں۔ اگر ۳۴سال کے زمانے کا جائزہ لیا جائے تو ان ۳۴برسوں میں نہ جانے کتنی اہم شخصیات اس کائنات سے رخصت ہوئیں مگر ان شخصیات کو اتنی شدت سے کوئی نہیٰں یاد کرتا جتنی شدت سے لوگ محمد رفیع کو یاد کرتے ہیں۔
۱۹۴۲ء میں فلم ’گاؤں کی گوری‘ سے اپنی گائکی کا آغاز کرنے والے بر صغیر کے عظیم گلو کار محمد رفیع نے ایک فقیر کی گائکی سے متاثر ہو کر گلوکار بنے کا عہد کیا تھا محمد رفیع اس فقیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ جب وہ ان کی بال وداڑھی تراشنے والی دکان کے نزدیک سے گاتا ہوا گزرتا تو وہ اس کے پیچھے پیچھے چل دیتے۔ بہر حال ان کے نغمے کے شوق کو دیکھ کر ان کے بڑے بھائی نے ان کومطرب بنانے کا فیصلہ کر لیا اور وہ ان کو ایک شاندار بزم طرب میں لے گئے جہاں اس زمانے کے معروف گلوکار کے ایل سہگل بھی تشریف لانے والے تھے۔
موسیقی کے پروگرام کا آغاز ہونے ہی والا تھا کہ لائٹ چلی گئی اور سامعین شوروغل کرنے لگے آخر کار پروگرام کے روح رواں نے ان کے شور و غوغا کو بند کرنے کیلئے محمد رفیع کو آواز دی۔ رفیع صاحب کی جیسے ہی پُر کشش آواز فضاؤں میں گونجی شورو غل کرنے والے سامعین پوری طرح خاموش ہو گئے۔ کے ایل سہگل بھی نوجوان رفیع کی گلوکاری سے بہت متاثر ہوئے اور انہوںنے یہ پیشن گوئی کی کہ یہ لڑکا ایک دن بہت بڑا گلوکار بنے اور کے ایل سہگل کی پیشن گوئی آگے چل کر سچ ثابت ہوئی۔
محمد رفیع کو ایک گلوکار کی حیثیت سے جس فلم کے نغمے سے کامیابی ملی وہ فلم تھی ’جگنو‘ جو ۱۹۴۷ء میں منظر عام پر آئی تھی ۔ دلیپ کمار اور نورجہاں پر فلمایا گیا اس نغمے کے بول تھے ’’یہاں بدلا وفا کا ہے وفائی کے سوا کیا ہے۔‘‘ اس سال کے ایل سہگل کی اداکاری سے مزین فلم شاہ جہاں بھی ریلیز ہوئی اس فلم کے ایل کورس میں رفیع صاحب کو کے ایل سہگل کے ساتھ پہلی اور آخری بار گیت گانے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ رفیع صاحب کو کے ایل سہگل کے ساتھ کئی نغمے گانے کی خواہش تھی مگر کے ایل سہگل کے ساتھ ان کو دوبارہ گانے کا موقع اس لئے فراہم نہیں ہوا کہ اس فلم کے نغمے ریکارڈ کرانے کے بعد وہ اس دار فانی رخصت ہوگئے قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ رفیع کے علاوہ کسی گلوکار کو ایل سہگل کے ساتھ گانے کا موقع نہیں ملا۔
فلم ’جگنو‘ کے بعد ۱۹۴۸ء میںٰ آئی فلم میلہ کے اس نغمے سے ’’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوںگے افسوس ہم نہ ہونگے‘‘ سے رفیع صاحب کی شہرت اوج ثریا پر گردش کرنے لگی۔ اسی سال آئی فلم دل لگی میں ان کے گائے نغمے ’’تیرے کوچے میں ارمانوں کی دنیا لے کے آئے ہیں‘‘ اور اس دنیا میں آج دل والوں دل کا لگانہ کھیل نہیں خوب مقبول ہوئے اس کے بعد ۱۹۴۹ء میں ریلیز ہوئی فلم ’دلاری‘کا یہ نغمہ ’دسہانی رات ڈھل گئی نہ جانے تم کب آؤگے‘ بھی اس زمانے میں خوب مقبول ہوا اور آج بھی اس نغمے کا سحر برقرار ہے۔ ان چند فلموں میں ان دلکش نغموں کے گانے کے بعد رفیع صاحب کی مقبولیت کا سلسلہ ان کی رحلت تک جاری رہا۔
جن فلموں میٰں گائے ہوئے رفیع صاحب کے سبھی نغمے مقبول ہوئے ان میں ’دیدار‘، اڑن کھٹولہ، بیجو باؤرا، برسات کی رات، دل ایک مندر ، میرے محبوب، دل دیا درد لیا، رام اور شیام، لٹیرا دوست، اپریل فول دو بدن، میرے حضور، جینے کی راہ، میرے ہم دم میرے دوست، دور کی آواز، آئے دن بہار کے، ایک پھول دو مالی، انتقام، دور کی آواز، نیلا آکاش، میرے صنم، اپریل فول، کشمیر کی کلی، راج کمارآرزو، پالکی، نئی روشنی، محبوب کی مہندی، کھلونہ، آپ آئے بہار آئی، دو راستے، جنگلی، جانور، تاج محل، آدمی، امانت، جب جب پھول کھلے، نیند ہماری خواب تمہارا، حسینہ مان جائے گی، سہانہ سفر، سورج، برہم چاری، کوہ نور، نیا دور، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
رفیع صاحب نے صرف گیت ، غزلیں ہی نہیں گائیں بلکہ نعت و منقبت و قوالیاں بھی بڑے ہی پُر کشش انداز میں گائیں ہیں ان کی گائی ہوئی فلم ’دیار مدینہ‘کی یہ نعت شریف ’ تاجدار مدینہ نیاز ونماز کی یہ قوالی تیرے در یہ ٹکے میرا سر اور منقبت اے مومنو نیاز دلاؤ امام کی آج بھی خوب مقبول ہے۔
محمد رفیع کی گائی ہوئی عشقیہ قوالی میں فلم برسات کی رات کی یہ قوالی یہ عشق عشق ہے عشق، پردہ ہے پردہ(امر اکبر انتھونی) یہ مانا میری جاں محبت سزا ہے (ہنستے زخم) وغیرہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ گوچی فلم میں ان کا گایا ہوا بھجن دکھ کے سب ساتھی ، فلم چتر لیکھا کا یہ بھجن من تڑپت ہری اوم آج بھی خاص و عام میں مقبول ہیں۔
محمد رفیع نے پرتھوی راج کپور سے لے کر رشی کپور تک کے سبھی اداکاروں کے لئے نغمے گائے۔ اشوک کمار ، دلیپ کمار، دیوآنند، راج کپور ، شمی کپور، سنیل دت، راجندر کمار، راج کمار، منوج کمار، دھرمیندر، ششی کپور، جوائے مکھرجی، سواجیت، فیروز خان، سنجے خان، جتندر ، راجیش کھنہ، سنجیو کمار، امیتابھ بچن، ونود کھنہ، شتروگھن سنہا وغیرہ کی فلموں کو سرفرازی عطا کرنے میں محمد رفیع کی شاہکار ترنم و دلفریب آواز کا اہم کردار رہا ہے۔
محمد رفیع جس اداکار کیلئے نغمے گاتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے فلمی پردے پروہ خود اپنی آواز میں نغمہ گا رہا ہے۔ مثال کے طور پر محمد رفیع نے امیتابھ بچن کیلئے بہت کم نغمے گائے ہیں مگر جتنے بھی نغمے گائے ہیں ان سبھی نغموں کو زندہ جاوید بنا دیا۔ سہاگ اور نصیب فلم کا نغمہ ’اٹھہرہ برس کی تو ہونے کو آئی رے، اور جان جانی جناردن نغمے گا کر انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ کشور کمار کی آواز اپنے لئے ضرورت سے استعمال کرنے والے اداکار امیتابھ بچن کیلئے بھی انہیں کی اسٹائل میں آسانی سے نغمے گا سکتے ہیں ۔
محمد رفیع کو بہترین گلوکار بنانے میں ایک طرف جہاں موسیقی کار اعظم نوشاد، مدن موہن، او پی نیر ، ایس ڈی برمن، روشن، روی، کلیان جی آنند جی، لکشمی کانت پیارے لال وغیرہ کا اہم کردار رہا ہے وہیں شعراء کے تعاون کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
جن نغمہ نگاروں نے محمد رفیع کے لئے حیات بخش نغمے لکھے ان میں شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطانپوری، حسرت جے پوری، شیلندر ، کیفی اعظمی، راجہ مہدی علی خاں، اسد بھوپالی، آنند بخشی، پریم دھون وغیرہ کے اسم گرامی خصوصی طور سے قابل ذکر ہیں۔
محمد رفیع ایک طرف جہاں سنجیدہ نغموں کو گانے میں ماہر تھے وہیں رومانی نغموں کو بھی بخوبی گالیتے تھے مزاحیہ اداکاروں کیلئے تیار ہوئے مزاحیہ نغمے گا کر اپنے معاصرین گلوکاروں کو حیرت زدہ کر دیا ۔
۳۱جولائی ۱۹۸۰ء کو سفر آخرت پر روانہ ہونے والے صدی کے عظیم گلوکار محمد رفیع کے معروف نغموں میں جو نغمے آج بھی مقبول ہیں ان میں ’ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوںگے‘ (میلہ) ، میں زندگی میں ہردم روتا ہی رہا ہوں(انداز) ٹوٹے ہوئے خوابوں نے (مدھومتی) او دنیا کے رکھوالے(بیجو باؤرا)او دور کے مسافر(اڑن کھٹولہ)، رہا گردشوں میں ہر دم(دو بدن)، یاد نہ جائے (دل ایک مندر) آپ کے پہلو میں آکر(میرا سایہ)، ہم تم سے جدا ہو کے(ایک سپیرا ایک لٹیرا)،جو ان کی تمنا ہے(انتقام)، ہے دنیا اسی کی زمانہ اسی کا ، کیا سے کیا ہو گیا، جانے والوں ذرا (دوستی) دل کا سونا ساز(ایک ناری دو روپ)، میرے دوست قصہ یہ کیا ہو گیا(دوستانہ) فلم فلک پر جتنے (میرے حضور)، نفرت کی دنیا کو (ہاتھی میرے ساتھی) اب کیا مثال دوں(آرتی) چھلکا ہے جام(میرے ہم دم میرے دوست) باہوش و ہواس (نائٹ ان لندن) تعریف کروں کیا اسکی(کشمیر کی کلی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔