جمعیة علماءہند کے جنرل سیکریٹری محمود مدنی صاحب نے ’ سیکولر‘ کہلائی جانے والی پارٹیوں کے وعدوں اور ان کے نفاذ میں وسیع خلیج کے حوالے سے یہ معقول بات کہی ہے کہ مسلم ووٹوں کو لبھانے کے لئے” آجائے گا، کھاجائےگا‘ کی منفی سیاست کو چھوڑکر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگیں۔ان کے اس بیان کو ’مودی نوازی‘ سے تعبیر کرکے خصوصاً کانگریس اپنی جوابدہی سے بچنا چاہ رہی ہے۔لیکن محموڈ مدنی کے اس تیکھے بیان کا ہی بظاہر یہ اثر ہے کہ یوپی اے سرکار کو انسداد فرقہ ورانہ فساد بل یادآگیا ہے اور اس کی آئندہ پارلیمانی اجلاس میں پیش کئے جانے
کے اشارے مل رہے ہیں۔
سید محمود صاحب کے اس بیان کا خیرمقدم اس لئے بھی کیا جانا چاہئے کہ یہ صحت مندانہ انداز فکرجمعیة علماءہند کی سابقہ روش سے ہٹ کر ہے۔ اپنے روز قیام سے جمعیة نے ہر سرد وگرم میں کانگریس کی تائید و حمایت کی ہے اور عوام میں اس کا اعتماد قائم کرنے میں یہ بھی پرواہ نہیں کی کہ ان کوششوں کی بدولت خود اس کو بھی بارہاہدف تنقید بن جانا پڑا۔ ایمرجنسی کے دوران خاموشی اور اس کے بعد جنتا دور حکومت میں ملک و ملت بچاﺅ تحریک پر جو لے دے مچی تھی اس کو کون بھول سکتا ہے؟جمعیة اور خود محمود صاحب کی تین پشتوں نے تقریبا تین چوتھائی صدی تک کانگریس کی تائیدکا بوجھ ڈھویا ہے۔ اب اگر کانگریس سے اس کی کارکردگی کی بنیاد پر سوال پوچھا جارہا ہے تو اس پر حیرانی تو ہوسکتی ہے، پریشانی کا کوئی جواز نہیں۔ محمودصاحب نے اپنے بیان میں یا اس کی وضاحت کے دوران یہ نہیں کہا کہ جس کا ڈر دکھاتے ہو، اس سے مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ سنگھی ذہنیت اور اس کی تازہ علامت مودی بیشک خطرہ ہیں ، لیکن صرف مسلمانوں کے لئے نہیں، بلکہ پورے ملک کے لئے خطرہ ہیں۔ ملک کا ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے محمود مدنی یا مسلم رائے دہندگان اس خطرے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں آزادی کے بعد سے مسلم طبقہ کے ساتھ جو زیادتیاں دیگر پارٹیوں نے کی ہیں ان پر کوئی سوال ہی نہ اٹھایا جائے۔
جمعیة علماءہند کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جس طرح وہ تقسیم وطن سے پہلے فرقہ پرستی اور فرقہ ورانہ سیاست کے خلاف لڑتی رہی اور متحدہ قومیت و ہندو مسلم معاونت کی وکیل رہی، اسی طرح آج بھی ’ایک قوم ایک ہندستان ‘ی نقیب ہے اورفرقہ پرستی یا فرقہ ورانہ سیاست کی شدید مخالف ہے۔ افسوس کہ سیکولرزم اور قومی اتحاد کی داعی کانگریس رہنماﺅں کی بڑی اکثریت عملااس ڈکر سے ہٹ گئی اور فرقہ ورانہ سیاست کو اپنا شعار بنالیا۔ افسوس کہ جدوجہد آزادی کے آخری مرحلے میں کانگریس نے ملک کی تقسیم کے لئے اس فاسد نظریہ کو قبول کرلیا جس کا اصل موجد ہندومہاسبھا کے بانی دامودرساورکر تھے۔ تقسیم کے بعد اس نے آئین میں ضرور سیکولرزم کا دعوا کیا مگر عملاً فرقہ ورانہ تقیسم کی سیاست پر عمل کیا، جس کا ثبوب ایس سی، اسی ٹی ریزرویشن کا صدارتی آرڈر ہے جس میں مسلم ، عیسائی، سکھ اور بودھ طبقوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا۔ بعد میں بودھ اور سکھوں کو تو انصاف مل گیا مگر مسلم اور عیسائی اب تک محروم ہیں حتٰی کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملے میں مرکز اپنا بیان حلفی تک داخل نہیں کررہا ہے۔
پھر جہاں تک فسادات کا معاملہ ہے، تو یہ بھی کانگریس کی ہی کارستانی ہے کہ مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا اور کانگریس حکومتوں نے ہرفساد کے موقع پر سنگھ کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔پارلیمنٹ میں جمعیة رہنما مولانا حفظ الرحمٰن، مولانا اسعد مدنی، مولانا سید احمدہاشمی کے علاوہ دیگر مسلم اورصاف ذہن کے غیر مسلم قائدین کی تقاریر اس کا تاریخی ثبوت ہیں۔
مغربی بنگال میں کمیونسٹوں کے دور میں ، بہار میں لالوکی حکومت میں اور یوپی میں موجودہ سرکار کی کارکردگی نے بھی مسلم زخموں پر نمک پاشی ہی کی ہے، تاہم یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ یوپی اے نے مثبت اقدام کے طور پر جو چند اقدامات کئے ہیں، ہزار خامیوں اورکوتاہیوںکے باوجود ان کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہورہا ہے۔لیکن یہ سوال بجا طور پر کیاجاسکتا ہے کہ اگر ناانصافیوں کا ازالہ مثبت اقدامات کے زریعہ ممکن تھا تو پھرمحروم طبقات کو بشرط کہ وہ ہندو ہوں، ریزرویشن کیوں دیا گیا؟ اس تدبیر میں دوسری بڑی خامی یہ ہے ان کا نفاذ ریاستی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہوتاہے، جس انتظامیہ نے دیہی طبی خدمات اور روزگار گارنٹی اسکیم جیسی فلاحی اسکیموں کو فلاپ کردیا ،وہ مسلم مفاد کی اسکیموں کی کامیابی کا آلہ کسیے بن سکتی ہیں، خصوصاً اس لئے مسلم مخالف عصبیت اور رشوت ستانی کی ذہنیت کا بول بالا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مودی نے اپنی ریاست میں مسلم بچوں کے وظایف وغیرہ کی اسکیموں کو سپریم کورٹ کے احکام کے باوجود نافذ نہیں کیا ہے۔ اگر وہ مرکز میں برسراقتدار آجاتے ہیں ، یہ اسکیمیں ختم کردی جائیں گیں۔
نریندر مودی اور ان کے پرجوش حامیوں کی دلیل یہ ہے کہ ۲۰۰۲ءکے بعد گجرات میں کوئی مسلم کش فساد نہیں ہوا۔ فساد تو مغربی بنگال میں کمیونسٹوں کے ۴۲ سالہ دور اقتدار اور بہار میں لالو کے ۵۱ سالہ دور حکومت میں بھی نہیں ہوئے، اب بھی نہیں ہورہے ہیں، لیکن غریب طبقوں اور مسلم غریب طبقوں کو کس حال میں پہنچادیا گیا؟ مودی کی اس روش میں نہ تبدیلی کے آثار ہیں اور نہ امید کی جانی چاہئے اس لئے چند طالع آزما مسلم جو بھاجپا کے گن گارہے ہیں ان پر اعتماد نہیںکیا جاسکتا۔
نواز شریف کی سیاست
حالیہ پارلیمانی چناﺅ سے قبل پاکستان میں ہند کے تعلق سے سیاسی ماحول کے حوالے سے جو بیانات نواز شریف نے دئے تھے اور چناﺅ کے بعد انہوںنے ہند کے تئیں خیرسگالی اور مفاہمت کے جن زریں جذبات و احساسات کا اظہار کیا تھا، وہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد کنٹرول لائن کے مسلسل خلاف ورزیوں کے بدولت سراب ثابت ہورہے ہیں۔ صدر اوباما سے ملاقات کے لئے واشنگٹن جاتے ہوئے لندن میں انہوں نے کارگل جنگ کے دوران اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات میں ’مسئلہ کشمیر‘ کے لئے امریکا سے مدد مانگے جانے کا انکشاف کیا، اور یہ کہا کہ اگر امریکا چاہے تو یہ مسئلہ جلد حل ہوسکتا ہے۔ ہم ان کی اس نظریہ پر اس لئے حیران ہیںکہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں نے جب بھی اور جہاں بھی کسی علاقائی مسئلہ میں مداخلت کی ہے ، وہ ہرگز حل نہیں ہوا، بلکہ اور الجھا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان طاقتوں کو اپنا مفاد زیادہ عزیز ہوتا ہے، ان سے انصاف کرانے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس لئے ان کو اپنے خطے کے مسائل سے دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ طالبان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی معاونت کی بھاری قیمت اداکرنے کے باوجود پاکستانی قیادت کی یہ سوچ کہ امریکا کو ہند پاک مسائل کے حل کرانے کی دعوت دی جائے ،خطرناک ہے ۔ اس سے مسئلہ حل تو کیا ہوگا، تعلقات میں نئی کشیدگیاں اور بد اعتمادی پیدا ہوگی جس کے آثار صاف نظر آنے لگے ہیں۔
صدر اوبامہ سے حالیہ ملاقات کے دوران وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے دحشت گری کے حوالہ پاکستان سے سرگرم عناصر کا ذکر کیا تھا۔ یہ ذکر صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے ترکی کے دورے میں ترک رہنماﺅں سے ملاقات کے دوران بھی کیا تھا۔ مگر ایسی کوئی خبر نہیں کہ ہند نے دوطرفہ مسائل کے حل کے لئے ان رہنماﺅں سے مددمانگی ہو۔ اپنی تکلیف کا ذکر کرنا ایک بات ہے اور مداخلت کی دعوت دینا دیگر۔ ابھی پاکستان امریکا کے ڈرون حملوں کو بھگت رہا ہے۔ اس کو امریکا پر اتنا اعتماد نہیں کرلینا چاہئے، جتنا نوازشریف صاحب کر رہے ہیں۔
شادی سے پہلے سیکس
دہلی کی ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے ریپ کے ایک کیس کو خارج کرتے ہوئے بجا طور پر نوجوان لڑکیوں کومشورہ دیا ہے کہ وہ شادی سے پہلے سیکس کے مغربی رجحان سے پرہیز کریں۔یہ رجحان ایک سماجی برائی ہے۔ یہ کیس ایک نوجوان خاتون اس نوجوان کے خلاف دائر کیا تھا جس سے اس کو شادی کی امید تھی اور جس کے ساتھ وہ ہفتہ بھر کےلئے سیر سپاٹے پر گئی تھی۔ عدالت نے یہ بات نوٹ کی لڑکی کے والدین نے لڑکی کی گمشدگی کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔گویا وہ والدین کی رضامندی سے گئی تھی۔ بعد انہوں چاہا بھی اس لڑکے سے لڑکی کی شادی ہوجائے۔منگیتر کے ساتھ اس درجہ بے تکلفی ہمارے معاشرتی ماحول کے اس بگاڑ کی طرف اشارہ ہے جو ’آزادی نسواں‘ کے گمراہ کن نعرے سے فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ معاشرتی برائی اب مسلم معاشرے میں بھی بڑھ رہی ہے ، حالانکہ جوانی کے جوش میں ہوش باقی نہیں رہتا اوریہ بے تکلفی زندگیوں کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔جن اقوام میں ’باہم رضامندی‘ سے کچھ بھی کرگزرنا جائز سمجھا جاتا ہے اب وہ بھی اس سے پریشان ہیں اور غیر شادی شدہ ماﺅںکا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے لئے تو یہ صورت ہرگز قابل برداشت نہیں ہونی چاہئے کہ قرآن’ زنا کے قریب ‘تک پھٹکنے سے روکتا ہے۔ اس طرح کے بے تکلفی اسی زمرے میں آتی ہے۔
دوسری بیوی کو حق
ایک تازہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے غیرقانونی طور سے رکھی گئی دوسری بیوی کے بعض حقوق کو قانوناًجائز قرار دیا ہے۔ ہندو میرج ایکٹ کے تحت کسی ہندو یا سکھ کو کسی بھی حالت میں دوسری شادی کی اجازت نہیں ، تاوقتیکہ پہلی بیوی سے طلاق ہوجائے یا اس کی موت ہوجائے۔ یہ پابندی غیرفطری اور نامعقول ہے۔اس کی بدولت لڑکیوں کو زندہ جلانے کی وارداتیں ہوتی ہیں۔
بعض حالات میں، مثلا بیوی کے کسی ناقابل علاج عارضہ میں مبتلا ہوجانے، معذور ہوجانے، اولاد نہ ہونے کی صورت میں یہ اجازت ہونی چاہئے کہ پہلی بیوی کو دھتا بتائے بغیر دوسری شادی کی جاسکے اور دونوں بیویوں کو سماج اور قانون بیوی کا درجہ دے۔اب ہوتا یہ ہے لوگ بعض حالات میں غیر قانونی طور سے دوسری عورت کو رکھ لیتے ہیں جس کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی اوراس کے بچے بھی ورثہ سے محروم رہتے ہیں۔ لاکمیشن نے چند سال قبل اپنی ایک رپورٹ (۷۲۲)میں اس کی نشاندہی کی تھی،اور قانون میں مناسب تبدیلی کی سفارش کی تھی ،مگر اس پر کوئی توجہ شاید ابھی تک نہیں ہوئی۔(ختم)
Phohe: 9818678677,
email: vpaiem@yahoo.com