کانپور (نامہ نگار)شہر کا ٹریفک محکمہ کچھ مہینوں سے بیدار ہوگیا تھا۔ ناجائز قبضہ ہٹانے سے لے کر جام کھلوانے میں تیزی نظر آرہی تھی۔ انتخاب کے وقت اس نظام میں ایسی گڑبڑی پیدا ہوگئی کہ شہر میں ووٹنگ ختم ہونے کے دس بعد بھی سابقہ نظام بحال نہ ہوسکا۔جام شہر کی قسمت بن چکا ہے۔
لال بتی کی پرواہ بھی کسی کو نہیں ہے۔ بس اسٹینڈ بے معنی ہوگئے ہیں۔ مہم فوٹو کچھوانے سے شروع ہوکر اخبارات میں شائع کرانے پر ختم ہوجاتی ہیں۔اتوار کو چھٹی کا دن تھا۔جبکہ کچھ محکمہ ایسے ہوتے ہیں جہاں مکمل طور پر چھٹی نہیں ہوتی۔ شاید ٹریفک محکمہ اپنے کو اسی کلاس میں سمجھتاہے۔ شہر کے خاص چوراہوں پریڈ چوراہا پر دوپہر کو نظر ڈالنے پر ٹریفک پولیس غائب نظر آتی ہے۔ جن مقامات پر سپاہی دکھائی دیتے ہیں وہ اپنے سوجھ بوجھ کے مطابق ٹریفک نظام چلاتے ہیں۔ان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ لال بتی کیا اشارہ دے رہی ہے۔ شہر کے زیادہ تر چوراہوں پر یا تو لال بتی چالو نہیں ہے یا اس کے مطابق ٹریفک کی آمدورفت نہیں ہوتی۔ شہر کا شاید ہی کوئی
ایسا علاقہ ہو جہاں لال بتی کے مطابق ٹریفک چل رہی ہو۔شہر میں جام سے چھٹکارا پانے کے لئے محکمہ نے سڑک کے کنارے رسی لگا کر پارکنگ بنائی تھی۔ کچھ دن بعد رسی ٹوٹنے لگی ، لوگوں کی آس نہ ٹوٹے اس کے لئے محکمہ نے بولارٹ لگائے۔ اسی طرح آٹو میں داہنی طرف لوہے کا جھنڈا لگانے کی مہم چلائی گئی تھی۔ اب ان دونوں مہموں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اسی درمیان ٹریفک محکمہ کے کئی افسران ان باتوں کو قبول کرتے ہیں۔لیکن ساتھ ہی اپنی مجبوری بھی بیان کرتے ہیں۔ اعلیٰ افسران جہاں سپاہیوں کی کمی اور اسٹاف کی کمی کا رونا روتے ہیں وہیں ٹریفک ملازمین ۱۲گھنٹہ کی سخت محنت کو بھی اس کی وجہ بتاتے ہیں۔سپاہیوں کا کہنا ہے کہ اس دھوپ میں عوام تو ایک گھنٹہ بھی کھلے آسمان کے نیچے نہیں بیٹھ سکتے ہم لوگ ۱۲گھنٹہ دھول، دھواں اور جام جیسے مسائل سے دوچارہوتے رہتے ہیں۔