“داعش خوارج اور تاتاریوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے”
مصر کی افتاء کونسل نے دولت اسلامیہ “داعش” کی جانب سے مخالفین کو “ظالمانہ طریقے سے ذبح کرنے کو غیر انسانی اور غیر اسلامی” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خوارج کا طریقہ واردات ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مصری افتاء کونسل کی جانب سے جاری ایک مفصل رپورٹ میں دولت اسلامیہ “داعش” کے ہاتھوں مخالفین کے قتل اور یرغمال بنائے گئے شہریوں کو ذبح کیے جانے کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ شریعت مطہرہ میں حالت جنگ یا عام حالات میں مخالفین کو یرغمال بنانے کے بعد انہیں ذبح کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں ایسی کوئی قطعی نص موجود نہیں جسے اس ظالمانہ طریقے کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ البتہ یہ طریقہ اسلام کے ابتدائی دور میں خوارج فرقے نے اختیار کیا تھا۔ وہ اپنے ہر مخالف کی گردن اڑاتے جاتے اور اس کے لیے وہ ایک حدیث کو اس کے سیاق سباق سے کاٹ کر پیش کرتے ہوئے ان الفاظ کو پیش کرتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ “مجھے ذبح کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔”
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حدیث مذکورہ کی صحت کے بارے میں بھی بہت سے اعتراضات موجود ہیں اور ثقہ علماء نے اسے قبول نہیں کیا ہے۔ یہ حدیث خوارج اپنے عقائد کو دوسروں تک پھیلانے کے لیے بہ طور جواز پیش کرتے اور مخالفین کی گردنیں اڑاتے جاتے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرون اولیٰ میں خوارج نے صحابی رسول حضرت حباب بن الارت کو یرغمال بنانے کے بعد ان سے حضرت ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضوان اللہ علھیم اجعمین کے بارے میں رائے پوچھی۔ انہوں نے چاروں کبار صحابہ کی تعریف کی تو خوارج نے انہیں شہید کر دیا۔
لوگوں کی گردنیں اڑانے کا ایک طریقہ قبل از اسلام بھی عربوں میں رائج تھا لیکن ظہور اسلام کے بعد اس کا وجود ختم ہو گیا تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غیر انسانی قرار دے اس پر عمل درآمد سے روک دیا تھا۔ آپ نے جنگ کے جو اصول ومبادی پیش کیے ان میں اجناس، فصلوں، باغات، درختوں اور جانوروں تک کو مارنے سے بھی سختی سے منع فرمایا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف نبی کسی غیر جاندار چیز کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کریں اور دوسری جانب وہ لوگوں کی گردنیں مارنے کی اجازت بھی دیں۔
قرون وسطیٰ میں مخالفین کا اجتماعی قتل عام تاتاریوں اور منگولوں کے ہاتھوں سے اس وقت دیکھا گیا جب انہوں نے اسلامی دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے شروع کی۔ تاتاریوں اور منگلوں کے اس اقدام کو کسی مذہب کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اسلام اس کی کیسے اجازت دے سکتا ہے۔
دور حاضر میں مخالفین کو نہایت بے دردی سے قتل کرنے کا راستہ القاعدہ اور اس سے پھوٹنے والی دہشت گرد تنظیموں نے اختیار کیا۔ القاعدہ سمیت کوئی تنظیم اپنے اس طریقہ واردات کو جو مرضی شرعی جواز پہنائے لیکن وہ اسے اسلامی طریقہ کسی صورت میں ثابت نہیں کر سکتی کیونکہ مخالفین کا قتل نص شرعی سے کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش اور اس قبیل کے دوسرے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے مخالفین کے قتل کی بنیادی وجہ ان گروپوں کا مخالفین پر رعب طاری کرنے کا نظریہ ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو اسی طرح خوفزدہ کرنا چاہتے کیونکہ ان کے پاس نظریاتی مخالفین کو زیر کرنے کا اور کوئی آئینی اور قانونی راستہ نہیں ہے۔
مصری افتاء کونسل کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجو نہ صرف مخالفین کو سرعام ذبح کرتے ہیں بلکہ لاشوں کا مثلہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاشوں کا مثلہ بنانے سے نہایت سختی سے منع فرمایا تھا۔ یہ ظلم خوارج کے ہاتھوں بھی نہیں ہوا جو اب داعش کرتی پھر رہی ہے۔
رپورٹ میں داعش کی جانب سے ایک دوسری حدیث کی من گھڑت تعبیر اور تشریح کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعشی جنگجو ایک دوسری حدیث “میرا رزق میرے نیزے کی نوک تلے رکھا گیا ہے” کو بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں۔ وہ اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد محنت کرے رزق حاصل کرنا نہیں بلکہ توحید سے رو گردانی کرنے والوں کی گردانیں اڑا کر ان کے مال واسباب پر قبضہ کرنا، ان کے بچوں اور خواتین کو غلام اور لونڈیاں بنانا ہے۔”