ایمنسٹی انٹرنیشنل کے فلپ لوتھر کا کہنا ہے کہ مسلسل بیرل بمباری نے حلب میں لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے
اقوامِ متحدہ کی جانب سے شام کے مسئلے پر دوبارہ سے مذاکرات کا آغاز آج جینیوا میں ہو رہا ہے جبکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام کی حکومت پر حلب میں انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سفیر سٹافان ڈا مستورا شامی حکومت اور باغی گرہوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ ان مذاکرات میں ترکی اور ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ تاہم مذاکرات میں شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ اور النصرہ کو نہیں بلایا گیا۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل نے شامی حکومت پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگایا ہے اور
باغی گروہوں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔
منگل کے روز شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں عالمی ادارے نے کہا ہے کہ باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں سرکاری افواج شہریوں پر مسلسل بمباری کر رہی ہیں۔
بیرل بم
ادارے نے حلب میں سرکاری افواج کی جانب سے شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کو جنگی جرائم قرار دیا ہے
’ڈیتھ ایوری ویئر‘ یعنی ہر طرف موت نامی اپنی 60 سے زائد صفحات پر مبنی رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیرل بمباری سے تباہی اور قتل و غارت کے متعلق عینی شاہدین کے بیانات کو پیش کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2014 سے مارچ 2015 کے دوران حلب میں کی جانے والی بمباری میں 3124 افراد ہلاک ہوئے جن میں جنگجؤوں کی تعداد فقط 35 تھی جبکہ دیگر تمام عام شہری تھے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرل بمباری سے سکول، ہسپتال، بھرے بازار اور مساجد تک کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے بہت سے سکولوں اور ہسپتالوں کو حفاظتی اقدامات کے تحت تہہ خانوں اور زیر زمین جگہوں میں منتقل کرنا پڑا۔
رپورٹ میں مقامی رضاکاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے گذشتہ ماہ حلب میں 85 بار بیرل بمباری ہوئی جس میں کم از کم 110 شہری ہلاک ہوئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطی اور شمالی افریقی پروگرام کے ڈائرکٹر فلپ لوتھر نے کہا: ’وسیع پیمانے پر ظلم و جبر، بطور خاص سرکاری افواج کی جانب سے شہری آبادیوں پر مسلسل فضائی بمباری نے حلب کے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔‘
ہر طرف موت
ایمنسٹی انٹرنیشل کا کہنا ہے کہ جنوری 2014 سے مارچ 2105 کے درمیان کم ازکم تین سکول، 12 ہسپتال، مواصلات کے 12 مراکز، 23 مساجد اور 14 عوامی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ادارے کا دعویٰ ہے کہ مقامی افراد بتاتے ہیں کہ زیادہ تر حملوں میں بیرل بم استعمال ہوئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’شہری علاقوں پر یہ قابل ملامت اور مسلسل بمباری شہریوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی پالیسی کی غماز ہے اور یہ جنگی جرائم کے ساتھ ساتھ انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ’حلب میں حکومت کے بعض اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔‘
اسی طرح ادارے نے شام میں مجود باغیوں کی کارروائیوں کو بھی جنگی جرم قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرل بمباری سے نہ سکول نہ ہسپتال اور نہ مساجد اور بازار بچے ہیں
اپریل سنہ 2014 میں ایک سکول پر ہونے والے حملے کے بارے میں جغرافیہ کے ایک استاد نے کہا: ’میں نے وہ منظر دیکھا جسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ بچوں کے اعضا بکھرے پڑے تھے۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ جسم کے چیتھڑے اڑ گئے تھے۔‘
اسی طرح جون میں ایک بازار ’سکاری‘ میں ہونے والے حملے کو ’مکمل دہشت‘ قرار دیا گیا جس میں ایک بھرے بازار کو بیرل بم سے نشانہ بنایا گيا تھا جب وہاں 150 سے زیادہ افراد کھانے کے لیے ایک قطار میں کھڑے ہوئے تھے۔
مگر اس کے باوجود شام کی حکومت ایک بھی ہلاکت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ فروری میں دیے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں صدر بشار الاسد نے اپنی فوج کی جانب سے کسی بھی بیرل بمباری سے انکار کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں بلکہ بچوں کی کہانی ہے۔
حلب کے لوگ بیرل بمباری کی وجہ جسے تہہ خانوں اور زیر زمین رہنے پر مجبور ہیں
خیال رہے کہ تقریبا ایک سال قبل اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں انسانی حقوق کی پامالی ختم کرنے اور بطور خاص بیرل بمباری بند کرنے کی اپیل کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اگر حکومت اس پر عمل نہیں کرتی تو پھر نتائج کے لیے تیار رہے۔
فلپ کا کہنا ہے کہ ’آج بین الاقوامی برادری نے سنگ دلی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حلب کے شہریوں سے منھ پھیر لیا ہے جس سے انسانی المیہ میں اضافہ ہوا ہے۔‘
فلپ لوتھر نے کہا ’بے رحمی اور دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنانے کی حکومت کی پالیسی حلب کے باشندوں کو اجتماعی سزا دینے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے شام کے باغی بھی جنگی جرائم کی مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے بلاامتیاز یا اندھا دھند اسلحوں کا استعمال کیا ہے جن میں وہ دیسی راکٹ بھی شامل ہیں جنھیں ’ہیل کینن‘ کہا جاتا ہے۔