چارلی ایبڈو پر حملے کے بعد آزادء اظہار اور اس میں حدود پر دوبارہ سے بحث شروع ہوئی ہے
جہاں تک مجھے یاد ہے صحافت میں میرے پرانے مدیر نامور صحافی ایم جے اکبر کا ایک ہی حکم یا ہدایت ہوتی تھی اور وہ یہ کہ (میں اس کی تشریح کر رہا ہوں) ’آپ کسی بھی مضمون پر جو بھی لکھنا چاہتے ہیں لکھیں، لیکن مذہب کا مذاق کبھی بھی نا اڑائیں‘۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ اس لیے کہا جاتا تھا تاکہ وہ یہ دکھا سکیں کہ ان کا اخبار مذہب کا احترام کرتا ہے یا پھر پریس میں مذہب کی توہین کرنے پر جن مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے اس سے بچنے کے لیے وہ ایسا کہتے تھے۔ شاید ان دونوں کی وجہ سے ہی ایسا تھا۔فرانس کے ہفت روزہ جریدے چارلی ہیبڈو پر حملے سے متعلق اخبار ’بزنس سٹینڈرڈ‘ میں لکھتے ہوئے ٹی این نینن نے لکھا ہے کہ ’بہت سے معاشرے، خاص طور پر وہ جو مغربی روشن خیالی کا حصہ ہیں، وہ آزادء اظہار کے حق میں بعض چیزوں کو چھوڑ کر کسی بھی حد کے قائل نہیں، اس آزادی میں جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا حق بھی شامل ہے۔ انقلاب فرانس کے دوران ’آدمی کے حقوق سے متعلق اعلامیے‘ میں اظہار کی آزادی کو ’انسان کے سب سے قیمتی حقوق میں شامل کیا گ?ا تھا۔‘حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’تمام مذاہب کی ساتھ برابری کی عام روایت کے تحت اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھارتی پبلکیشن (پیمغبر اسلام) کا کوئی کارٹون یہ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی شائع کرے گا کہ اس سے کروڑوں لوگوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ ہاں، اور اگر اس کے باوجود کوئی طالع آزما ایڈیٹر ایسا کرنے کا متمن? بھی ہو تو بھی ممکن ہے کہ وہ اس سے پیش آنے والی مشکلات کے مد نظر اس سے باز رہیگا۔ صرف تشدد اور دھمکیاں ہی نہیں بلکہ قانونی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔‘بھارت میں آزادء اظہار کا سفر مشکل رہا ہے، یہاں تک جواہر لال نہرو جیسے بڑے رہنما بھی اس بنیادی آزادی کے ساتھ کیا طریقہ کار اپنایا جائے کے سوال پر غیر یقینی کا شکار رہے۔26 جنوری 1950 میں ہمارے آئین کی دفعہ 19 (اے) میں آزادء اظہار کی یقین دہانی کرائی گئی۔ پندرہ ماہ بعد نہرو اپنی اس یقین دہانی سے مکر گئے اور اس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ بھارت میں تقریبا نصف درجن ایسے قوانین ہیں جو آزادء اظہار کو محدود کرتے ہیں۔
اس میں سے بعض قوانین تو عجیب و غریب ہیں۔تمام مذاہب کی ساتھ برابری کی عام روایت کے تحت اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھارتی پبلکیشن (پیمغبر اسلام) کا کوئی کارٹون یہ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی شائع کرے گا کہ اس سے کروڑوں لوگوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ ہاں، اور اگر اس کے باوجود کوئی طالع آزما ایڈیٹر ایسا کرنے کا متمن? بھی ہو تو بھی ممکن ہے کہ وہ اس سے پیش آنے والی مشکلات کے مد نظر اس سے باز رہیگا۔ صرف تشدد اور دھمکیاں ہی نہیں بلکہ قانونی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔نینن اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’بھارت کا طریق? کار اس بارے میں احتیاط سے پْر ہے اظہار کی آزادی بنیادی حق ہے لیکن وہ حق مطلق نہیں ہے، آئین نے اسے امن عامہ، شائستگی اور اخلاقیات کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، یہ سب کی سب بہت ہی مبہم اصطلاحات ہیں۔ آخر کیوں، ایسا کچھ بھی لکھنے پر جس سے دوست ممالک کے ساتھ رشتے متاثر ہوں ممنوع ہے؟ اصولوں کے سوال کے علاوہ بھی، عملاً یہ مشکل ہے کہ ایسی کوئی منظور شدہ فہرست تو ہے نہیں کہ کونسا ملک دوست اور کون سا دشمن ہے۔‘ایسے بڑے واضح قوانین ہیں جو مذہبی تشدد بڑھکانے، بغض و عناد کی ترویج کرنے، کسی مذہب کی توہین اور مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن یہ قوانین نئے بالکل نہیں ہیں۔اظہار کی آزادی پر قدغن لگانے والے ہمارے قوانین 1837 میں وضع کیے گئے تھے۔ تھامس میکاؤلی جب محض تینتیس برس کے تھے تب انہوں نے ہندوستانی پینل کوڈ کی تشکیل شروع کی تھی۔ تب سے گزشتہ ایک سو پچھہتر برسوں سے کم و بیش اسی پر عمل جاری ہے۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جدیدیت کے لبادے میں ہونے کے باوجود ہم کس قدر تبدیل نا ہونے والی تہذیب کا حصہ ہیں۔پینل کوڈ نوآبادیاتی دور کے قوانین کا آج بھی بھارت میں چلن ہے۔ یہ اس لیے کہ ایک انگریز نے ہمارے متعلق صحیح سے اندازہ لگایا اور ہمارے سلوک اور خارجی حرکات کے متعلق پیشین گوئی کی۔ اسی سے میکاؤلی کو ایک عظیم انسان کا مرتبہ حاصل ہوا۔ وہ اٹھارہ سو سینتیس میں یہ بات بڑے اطمینان سے بتا سکے کہ ہم میں سے کتنے سنہ 1984 اور 1993 اور 2002 میں درندگی کا مظاہرہ کریں گے۔ آئین میں بڑے اور عالمگیر قسم کے وعدے کیے گئے لیکن وہ بھارت کے فرقہ وارانہ فسادات کی حقیقت کے سامنے تاب نا لاسکے۔صحافی، جو آزادء اظہار کی بحث میں صفِ اول میں ہیں، کے لیے اس مسئلے کو بلیک اینڈ وہائٹ میں دیکھنا آسان نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ چارلی ہیبڈو نے اپنے ایک صحافی کو یہودیوں کے خلاف لکھنے پر نکال دیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ میگزین کو اسلام پر حملے کرنے میں اتنی دلچسپی تھی میں یہ سن کر حیران ہوگیا تھا کہ ایسا بھی ہوا ہے۔اخبار ’دی ڈیلی ٹیلیگراف‘ نے دو ہزار نو میں رپورٹ کیا تھا کہ اسی سالہ موریس سائنیٹ، جو اپنے قلمی نام سائن کے نام سے لکھتے ہیں، کو گزشتہ جولائی میں چارلی ہیبڈو میں ایک مزاحیہ کالم لکھنے کی بنا پر نسلی منافرت پھیلانے کے مقدمے کا سامنا ہے۔ ان کے اس مضمون سے صرف فارسی دانشوروں میں ایک عامیانہ جملوں پر مبنی بحث شروع ہوئی تھی اور بس اسی کی بنیاد پر انہیں میگزین سے فارغ کر دیا گیا۔مضمون ’لا افیئر سائن‘ میں بائس سالہ نکولاڑ سارکوزی کی جیسکا سبیؤن ڈارٹی نامی یہودی لڑکی کے ساتھ تعلقات کا احاطہ کیا گ?ا تھا۔
ایک افواہ پر تبصر کرتے ہوئے کہ صدر سرکوزی کے بیٹے یہودی مذہب اپنانے والے ہیں اور لکھا تھا ’انہیں زندگی میں ایک طویل راستہ طے کرنا ہوگا، بیچارہ چھوٹا بچہ۔‘ایک بڑے سیاسی مبصر نے ان کے اس مضمون کو یہودیوں اور سماج میں ان کی کامیابیوں کے خلاف تعصب سے منسلک کرتے ہوئے سخت نکتہ چینی کی تھی۔ چارلی ہیبڈو کے ایڈیٹر فلپ وال نے سائنیٹ سے اس پر معافی مانگنے کو کہا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اس سے اپنے آپ کو نامرد کرنے کو ترجیح دوں گا۔‘?سائن کو برطرف کرنے کے مسٹر وال کے فیصلے کو بشمول فلسفی برنارڈ ہینری لیوی کے سرکردہ دانشوروں کے ایک گروپ نے حمایت کی تھی۔ لیکن دانشوروں کے ایک گروپ نے آزادء اظہار کے حوالے سے سائینٹ کی حمایت بھی کی تھی۔ممکن ہے کہ منافقت کا یہ ایک واضح کیس لگے لیکن ہم سبھی کی طرح چارلی ہیبڈو کے بھی اپنے آزادء اظہار سے متعلق شکوک تھے۔