“جب آپ جسم کا درجہ حرارت 10 سینٹی گریڈ ہوجائے، کوئی دماغی سرگرمی، دل کی دھڑکن، خون کی گردش غرض سب کچھ تھم جائے اور ہر ایک یہ مان لے کہ آپ مرچکے ہیں مگر ہم پھر بھی آپ کو زندگی کی جانب واپس لا سکتے ہیں”۔
یہ وہ دعویٰ ہے جو ایری زونا یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر رہیی نے کیا۔
اور یہ ایسا مبالغہ آرائی پر بھی مشتمل نہیں پروفیسر پیٹر نے میری لینڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سیموئل ٹیشرمین کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا ہے کہ جسمانی افعال کو ایک وقت میں کئی گھنٹوں تک معطل یا بند رکھا جاسکتا ہے۔
یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی آزمائش ابھی تک جانوروں پر ہی ہوئی اور اس میں زخمی ہوجانے والے جسم سے خون کو نکال کر اس ٹھنڈے کھارے پانی سے تبدیل کردیا جاتا ہے جبکہ خون کو عام جسمانی درجہ حرارت سے 20 سینٹی گریڈ کم درجہ حرارت میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔
ایک بار جب زخم ٹھیک ہوجاتے ہیں تو خون کو ایک بار پھر رگوں کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے اور جسم ایک بار پھر آہستہ آہستہ گرم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
پروفیسر پیٹر بتاتے ہیں ” جیسے ہی خون کو دوبارہ چڑھایا جاتا ہے اس وقت جسم گلابی ہونا شروع ہوجاتا ہے “۔
ان کے بقول ایک خاص درجہ حرارت پر پہنچنے کے بعد دل خود بخود جسم میں زندگی دوڑا دیتا ہے ” یہ بہت حیرت انگیز ہے کہ تیس سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر دل دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے جیسے وہ کبھی رکا ہی نہیں تھا اور خود ہی کام کرنے لگتا ہے”۔
حیرت انگیز طور پر جن جانوروں پر یہ تجربات کیے گئے ان میں دوبارہ اٹھنے کے بعد بہت کم منفی اثرات سامنے آئے۔
پروفیسر سیموئل کا کہنا ہے کہ عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ تجربات کے بعد سامنے آنے والی حقیقت ہے جسے ایک منظم انداز سے کیا گیا ہے۔
پروفیسر پیڑ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ جسمانی افعال کو مستقبل قریب میں طویل عرصے تک معطل کرنے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا کیا جاسکتا ” ابھی تو ہم اپنے تجربات کے ابتدائی مرحلے میں ہے”۔