نئی دہلی:مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہپت اللہ نے آج یہاں کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت میں مرکزی حکومت وقف املاک کے تحفظ اور اس کی جائیدادوں پر ناجائز قابضین کو ہٹانے کے لئے عہد کی پابند ہے ۔یہاں انڈیا اسلاک کلچرل سینٹر میں منعقدہ وقف کانفرنس میں محترمہ ہپت اللہ نے سینٹرل وقف کونسل (سی ڈبلیو سی) کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا مشاورتی اور ریگولیٹری ادارہ ہے جس کا کام ریاستی وقف بورڈوں کے کام کاج کی نگرانی کرنا اور پورے ملک میں اوقاف کا معقول انتظام کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سی ڈبلیو سی کے قیام کا مقصد وقف کے مفادات کا تحٖفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اوقاف کے معاملات میں شفافیت لانا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈبلوی سی کی سالانہ کانفرنس ایسا پلہیٹ فارم ہے ، جس میں اوقات کے تحفظ اور ڈیولپمنٹ کے لئے گزشتہ برس کئے گئے کام کاج اور پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ اسے مزید بہتر بنانے کی غرض سے آئندہ کی حکمت عملی بھی تیار کی جاتی ہے ۔
محترمہ نجمہ ہپت اللہ نے کہا کہ سینٹرل وقف کونسل کا ریاستی وقف بورڈوں پر کافی انحصار ہوتا ہے ۔اس لئے اس سالانہ کانفرنس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اوقاف املاک کے تحفظ اور ان کے ڈیولپمنٹ کی پیش رفت کے سلسلے میں ان سے براہ راست بات چیت کی جائے تاکہ پورے ملک میں اوقاف کو درپیش مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لئے اقدامات بھی کئے جاسکیں۔انہوں نے کہا کہ ترمیم شدہ وقف ایکٹ 1995 میں اوقاف کے سروے کو پورا کرنے ، غیر قانونی قبضوں سے نپٹنے ، وقف املاک کو منتقل ہونے سے بچانے ، سہ رکنی وقف ٹریبونسل کے قیام وغیر سے متعلق اہم التزامات ہیں۔ یہ ایکٹ سی ڈبلیو سی کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ہی اسے ریاستی وقف بورڈوں اور ریاستی حکومتوں کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے ۔مرکزی وزیر نے عام وقف بورڈوں کے چیئرمینوں، چیف ایگزیکٹوافسروں اور بورڈ کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ ووقف ایکٹ کے التزامات کا بغور مطالعہ کرکے اوقاف کی املاک کے تحفظ اور ان کے ڈیولپمنٹ کو یقینی بنائیں تاکہ واقف کے مقصد کو پورا کیا جاسکے ۔
محترمہ نجمہ ہبت اللہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وزارت برائے اقلیتی امور نے کئی موقعوں پر کانفرنسیں اور سیمیناروں کا اہتمام کرکے ریاستی وقف بورڈوں کے عہدیداروں اور ریاستی حکومتوں سے رابطہ قائم کیا۔ اس کے باوجود اس قانون کی بعض شقوں کو یا تو نافذ ہی نہیں کیا گیا یا پھر ان کا اس جزوی طور پر نفاذ عمل میں آیا۔ جن میں وقف جائیدادوں کے سروے ، وقف ٹربیونلوں کی تشکیل’ کل وقتی چیف ایگزیکٹو افسروں کی تقرری وغیرہ کے معاملے شامل ہیں۔انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ کچھ ریاستی وقف بورڈوں میں اور بعض ریاستی حکومتوں کی سست روی کی وجہ سے وقف بورڈوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکی۔ مرکزی وزیرنے اس بات پر حیرانی ظاہر کی کہ مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول چنڈی گڑھ دادر نگر حویلی میں اوقاف کا سروے مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔ انہی تجربات کی بنیاد پر وقف ایکٹ 1995میں وقف (ترمیمی) ایکٹ2013کے ذریعے ترمیم کی گئی جو یکم نومبر2013سے نافذالعمل ہوا۔ اس ایکٹ کے مطابق اوقاف کا سروے ایک سال کے اندر مکمل ہونا چاہئے تھا لیکن کسی بھی ریاست میں یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے جب کہ آج کی تاریخ تک صرف 18ریاستوں میں سروے کمشنر مقرر کئے گئے ہیں۔
محترمہ نجمہ نے کہا کہ اسی طرح بیشتر ریاستوں نے اس ایکٹ کے مطابق سہ رکنی وقف ٹریبونل قائم نہیں کیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو فیصلے کی تاریخ یعنی 15 دسمبر 2015 سے چار مہینے کے اندر سہ رکنی ٹریبونلس قائم کرنے کی ہدایت دی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب تک صرف 16 ریاستیں وقف بورڈوں کے تحت صرف 14 وقف ٹریبونلس قائم کئے گئے ہیں۔ صرف ایک صحیح سروے سے ہمیں اوقاف کی املاک کی تعداد، ان کی مالیت اور ان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں گے جس سے یہ پتہ چل سکے گا کہ اوقات کی وہ املاک ناجائز قبضے سے پاک ہیں یا مقبوضہ ہیں اور یہ کہ ان سے مناسب آمدنی ہورہی ہے یا نہیں اور انہیں ٹھیک طرح سے ڈیولپ کیا گیا ہے یا نہیں۔ڈاکٹر ہپت اللہ نے کہا کہ وقف ٹریبول کے قیام میں تاخیر سے اوقاف کے انتظام پر منفی اثر پڑتا ہے ۔ اس لئے ریاستی حکومتوں اور ریاستی وقف بورڈوں کو باہمی تال میل اور ہم آہنگی قائم کرکے اوقاف کی املاک کے تحفظ اور قبضوں سے پاک کرنے کے عمل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔