لکھنؤ(نامہ نگار)اترپردیش میں بجلی کی زبردست کمی کے سبب لوگ مظاہرہ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ آئے دن ہونے والے احتجاج ، مظاہرہ اور ہنگاموں سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں بجلی کو لے کر زبردست ناراضگی ہے۔ راجدھانی سمیت ریاست کے کچھ اضلاع کو ۲۲-۲۴ گھنٹے بجلی مل رہی ہے لیکن کئی اضلاع کو ۱۲گھنٹے بھی بجلی نہیںمل پا رہی ہے ایسے میں مرکزی حکومت چاہے تو ملک کی کل بجلی پیداوار کا ۱۵فیصد غیر الاٹمنٹ کوٹے سے ریاست کوبجلی دے سکتی ہے۔ اترپردیش میں بجلی کی کمی کیلئے ناقص توانائی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔
واضح رہے کہ موجودہ وقت میں ملک میں مرکزی سیکٹر ، ریاستی سیکٹر، پرائیویٹ سیکٹر کی کل قائم پیداوار صلاحیت تقریباً دو لاکھ ۴۵ہزار ۳۹۴ میگاواٹ ہے جس کے مقابلے ملک میں اپریل ۲۰۱۴ء تک تقریباً ۸۶ہزار ۵۹۱ملین یونٹ بجلی پیداہوئی۔ شمالی علاقہ ، مغربی علاقہ، جنوبی علاقہ، مشرقی علاقہ، شمال مشرق علاقہ سبھی کو کل ملا کر مرکزی سیکٹر کی جو غیر الاٹمنٹ والی ۱۵فیصد بجلی مرکز کے پاس رہتی ہے وہ تقریباً ۷ہزار ۲۰۷ میگاواٹ ہے جس میں شمالی علاقہ اترپردیش آتا ہے اس علاقہ میں غیر الاٹمنٹ والی بجلی کی کل مقدار تقریباً ۲۰۰۷ میگاواٹ ہے۔ اگر ملک کی سبھی ریاستوں کی بجلی فراہمی کی اپریل ۲۰۱۴ء میں زیادہ سے زیادہ مانگ اور فراہمی پر غورکریںتو پورے ہندوستان میں تقریباً ۵فیصد بجلی کی کمی ہے۔ اس میں اترپردیش میں سب سے زیادہ ۲۲فیصد کی ہے۔ مرکزی حکومت کو اس بات کو دھیان میں رکھ
نا چاہئے کیونکہ آبادی کے حساب سے یو پی ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اسی وجہ سے بجلی کی مانگ بھی سب سے زیادہ ہے۔ ان سب باتوں کو دھیان میںرکھ کر مرکز کو یو پی کے مطالبہ کو پورا کرنے میں تعاون کرنا چاہئے۔ ۷۰کی دہائی میں بنے گاڈگل فارمولے میں بجلی تقسیم میں آبادی کو ۶۰فیصد اہمیت دی گئی تھی اور بقیہ ۴۰فیصد میں ریاست کی آمدنی و جی ڈی پی وغیرہ کو شامل کیا گیا تھا حالانکہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ آبادی کو ۷۵فیصد نمبر دیاجانا چاہئے کیونکہ آبادی کی بنیاد پر ہی بجلی کی ضرورت طے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ مرکز کے غیر الاٹمنٹ کوٹے کی بجلی کا استعمال مرکز کو ایمرجنسی کی بنیاد پرجس ریاست کی صورتحال خراب ہو اس کو دینا ہوتا ہے۔ فی الحال اترپردیش میں بجلی کی زبردست کمی ہے اس کے پیش نظر مرکز کو بلا تاخیر اضافی بجلی ریاست کو دینا چاہئے تاکہ عوام جو بجلی کی قلت کے دور سے گزر رہے ہیں انہیں راحت مل سکے۔