دنیا کی آ بادی میں جس رفتار سے اضافہ ہورہا ہے اْس سے نہ صرف دیگر مسائل پیدا ہورہے ہیں، بل کہ دنیا کو بھوک کے عفریت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی بل کہ قدرتی آفات اور قحط سالی بھی غذائی قلت کا ایک اہم سبب ہے۔ غذائی قلت محض حراروں کی کمی کا نام نہیں، یہ لحمیات، معدنیات اور پروٹین کی کمی سے بھی ہو سکتی ہے۔ ان اہم غذائی اجزاء کے نہ ہونے سے جسم پر بْرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پروٹین کی کمی بچوں کی نشوونما، قوت مدافعت میں کمی اور کم زوریِ قلب کا باعث بنتی ہے اور نظامِ تنفس کو کم زور بناتی ہے۔ جسم میں فولاد کی کمی کے سبب دنیا بھر میں دوران زچگی ہلاک ہونے والی خواتین کی شرح 20 فی صد ہے، جب کہ آئیوڈین کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں 5کروڑ افراد مختلف دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔
دنیا بھر میں خوراک کی کمی اور غذائیت کی قلت ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سائنس داں مختلف حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے تحت سائنس داں خوراک کو پْرغذائیت بنانے کے لیے لیبارٹریوں میں نئی اقسام کی غذائیں بنا رہے ہیں۔انسانی جسم کو صحیح طریقے سے کام کرنے کے لیے نہ صرف حراروں کی ضرورت ہوتی ہے بل کہ لحمیات، حیاتین (وٹامن)، اور معدنیات بھی اہم جْز ہیں۔ خصوصاً بچوں کی نشوونما اور بڑھوتری کے لیے یہ اجزا نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم جنک فوڈ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے کھانوں کو محض ذائقے کی حد تک محدود کردیا ہے، کیوں کہ اس طرح کی خوراک میں غذائیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ان تمام عوامل نے سائنس دانوں کومستقبل میں خوراک کی کمی اور غذائی اجزا سے بھرپور خوراک بنانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے نئی اقسام کی خوراک اور کیڑے مکوڑوں کو انسانی خوراک کا حصہ بنانے کی ترغیب دی ہے۔ بہ طور مسلمان ہم وہی خوراک استعمال کرسکتے ہیں جس کی ہمیں ہمارے دین نے اجازت دی ہے۔ تاہم یہ معلومات ہمیں بتاتی ہیں کہ غذائی بحران کس قدر شدید ہوتا جارہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ مستقبل میں ممکنہ طور پر کون کون سی اشیاء انسان کی خوراک کا اہم جْز بن سکتی ہیں، آئیے جانتے ہیں:٭فورٹیفائیڈ غذائیں:سائنسی طریقے سے تیار کی جانے والی فورٹیفائیڈ غذائوں میں پروسیسنگ کے دوران غذائی اجزا شامل کرنے سے آبادی کے بڑے حصے کو صحت بخش خوراک ملے گی۔ تاہم منہگی ہونے کے سبب انتہائی غریب آبادیوں میں ہر کسی کی ان غذائوں تک رسائی نہیں ہوگی۔ سائنس داں اب ’’گولڈن رائس‘‘ جیسی بائیو فورٹیفائیڈ جیسی غذائیں تشکیل دے رہے ہیں، جن میں جینیاتی انجنیئرنگ کی مدد سے حیاتین الف (وٹامن اے) شامل کیا گیا ہے۔ یہ اْن افراد کو بھی دیا جاسکتا ہے جن کا انحصار صرف چاول اور اس جیسی خام پیداوار پر ہے۔ ان غذاوٓں کی تیاری میں مصروف سائنس داں پْرعزم ہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں جلد ہی ضروری اجزا سے بھرپور غذائیں مارکیٹ میں دست یاب ہوں گی۔٭کیڑے مکوڑے: غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ حشرات الارض لحمیات (پروٹین)، چربی (فیٹ)، حیاتین، ریشے (فائبر) اور معدنیات کے حصول کا ایک اچھا ذریعہ ہیں، جس کی ایک بڑی مثال تھائی لینڈ ہے، جہاں قایم 20 ہزار انسیکٹ فارم مقامی آبادی کی خوراک کا اہم حصہ فراہم کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک اور زراعت کے مطابق دنیا بھر میں کیڑوں کی 19سو سے زاید اقسام پہلے ہی دو بلین افراد کی خوراک کا حصہ ہے۔ گذشتہ سال اس ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں لحمیات کے حصول کے لیے گائے، مرغی اور مچھلی کے متبادل کے طور پر حشرات الارض کو روزمرہ کے کھانے کا حصہ بنانے کی حمایت کی تھی، جب کہ ہالینڈ کیWageningen یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ حشرات الارض نہ صرف عام گوشت کے مقابلے میں زیادہ غذائیت فراہم کرتے ہیں، بل کہ یہ لحمیات کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہیں۔محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان (کیڑوں) کی افزائش نسل پر آنے والی لاگت مویشی پالنے سے کئی گنا کم ہے۔ حشرات الارض نہ صرف پانی کا استعمال کم کرتے ہیں بل کہ ان کی وجہ سے کاربن کا اخراج بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں حشرات کی 1400اقسام انسانوں کے کھانے کے قابل ہیں۔ ہالینڈ کی حکومت نے تو کیڑے مکوڑوں کو غذا میں شامل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش شروع کردی ہے۔ حال ہی میں ڈچ حکومت نے قانونی طور پر انسیکٹ فارمز کی تیاری اور کیڑوں پر تحقیق کے لیے دس لاکھ یورو مختص کیے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تھائی لینڈ، چین، افریقا، ویت نام اور جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ٹڈی، جھینگر، بھڑ اور دیگر حشرات الارض مرغوب غذائوں میں شامل ہیں۔ غذا کے حوالے سے تحقیق کرنے والے برطانوی ادارے ’ایکسپیری مینٹل فوڈ سوسائٹی‘ کے ایک رکن گوئے کا کہنا ہے کہ دنیا جس رفتار سے بھوک کی طرف بڑھ رہی ہے تو وہ دن دور نہیں جب یہی حشرات الارض ہمیں غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کر رہے ہوں گے۔تاہم ہمیں کیڑوں کے بارے میں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا، کیوں کہ لفظ کیڑا سن کر ہی بہت سے لوگوں کو کراہیت کا احساس ہوتا ہے، اگر ہم لفظ ’’کیڑے‘‘ ہٹا کر تمام حشرات الارض کو ’’منی لائیو اسٹاک‘‘ کا نام دے دیں تو پھر یقیناً یہ بہت جلد لحمیات اور حیاتین سے بھرپور غذا کی حیثیت سے مقبول ہوجائیں گے۔دوسری جانب کیڑوں کو بہ طور غذا کھانے کی مخالفت کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حشرات الارض کا وجود غذائی زنجیر اور ماحول کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اگر انسانوں نے انہیں کھانا شروع کردیا تو نہ صرف جانوروں کی غذائی زنجیر متاثر ہوگی بل کہ اس کے ماحول پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیڑوں کے بجائے مصنوعی گوشت اور کائی جیسی اشیاء کو مستقبل کی غذائی ضروریات کے لیے استعمال کرنا زیادہ فائدہ مند ہے لیکن ان کا استعمال بھی ایک حد میں ہی کیا جانا چاہیے۔
٭کیمیائی ترکیب سے بنا گوشت:دنیا کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ گوشت کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ڈچ سائنس دان گائے کے اسٹیم سیل کو استعمال کرتے ہوئے ’’ان وائٹرو میٹ‘‘ کے نام سے گوشت بنا چکے ہیں۔ گذشتہ سال بھی لندن میں مصنوعی طریقے سے بننے والے گوشت کے برگر کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا، جب کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک سروے سے بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ گائے کے اسٹیم سیل سے بننے والا مصنوعی گوشت ماحول کو بھی بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا، کیوں کہ اس سے توانائی اور پانی کا استعمال کم اور گرین ہائوسز گیسوں کے اخراج میں بھی کمی ہوگی۔اس مطالعے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں مصنوعی گوشت بنانے سے مویشیوں کے لیے مختص کی جانے والی زمین کسی دوسرے مقصد میں استعمال کی جاسکے گی، بل کہ ’’ان وائٹرو میٹ‘‘ میں چربی اور دیگر غذائی اجزا کی مقدار میں ضرورت کے مطابق کمی بیشی کی جاسکے گی۔ ’’ان وائٹرو میٹ‘‘ تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک پوسٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ ایسا مصنوعی گوشت بنانا چاہتے ہیں جو شکل اور ذائقے میں اصل گوشت کی طرح ہی ہو۔ تاہم ہمیں امید ہے کہ جلد ہی قدرتی ذائقے سے بھرپور سینتھیٹک (Synthetic ) گوشت بڑے پیمانے پر بنی نوع انسان کی غذائی ضروریات پوری کرے گا۔ ٭کائی:ماہرین صحت نَم مقامات خصوصاً سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی کائی کو غذائیت سے بھرپور خوراک قرار دیتے ہیں۔ غذائی قلت کے خاتمے کے لیے کائی بہترین حل فراہم کر سکتی ہے۔ کائی کی غذائیت پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ کائی سے نہ صرف انسانوں اور جانوروں کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں، بل کہ اس قدرتی نعمت سے بائیو فیول (حیاتیاتی ایندھن) بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے ماحول پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔غذائی صنعت سے وابستہ برطانوی ادارے سی ویڈ ہیلتھ فائونڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر کریگ روز کا کہنا ہے،’’کچھ عرصے بعد کائی کی فارمنگ دنیا کی سب سے بڑی زرعی صنعتوں میں سے ایک ہوگی، جب کہ جاپان سمیت ایشیا کے کچھ ممالک میں کائی پہلے ہی مرغوب ترین غذا ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اس کی فارمنگ کی جا رہی ہے۔‘‘ اْن کا کہنا ہے کہ لحمیات سے بھرپور کائی، ساسیج اور پنیر کا بہتر متبادل ثابت ہوسکتی ہے۔دنیا بھر میں کائی کی 10ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرخ کائی سے حاصل ہونے والے جیلاٹین کو جام، جیلی، مایونیز، کریموں اور منجمد ڈیری پروڈکٹ میں موٓثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جاپان میں ہونے والے ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ سرخ کائی کھانے والے فربہ افراد میں ذیابطیس دویم کی شرح دیگر افراد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ کائی کی ایک دوسری قسم Seaweed صدیوں سے بہت سے جزائر میں بہ طور غذا استعمال ہو رہی ہے۔ یہ ضروری حیاتین اور آئیوڈین، آئرن، کیلشیم، میگنیشم، اور پوٹاشیم جیسی معدنیات سے پھر پور غذا ہے۔ کائی کی کچھ اقسام میں اہم غذائی جْز ’’اومیگا تھری فیٹی ایسڈ‘‘ بھی پایا جاتا ہے۔٭ غذائی قلت کا سامنا کن لوگوں کو ہے:عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق براعظم افریقا اس وقت غذائی قلت کا سامنا کرنے والے خطوں میں سرفہرست ہے۔ اس خطے کے تقریباً 40 فی صد بچے لحمیات کی کمی کا شکار ہیں، کیوں کہ اْن کی غذا کا زیادہ تر حصہ کاربوہائیڈریٹ والی اجناس پر مشتمل ہے۔ یہ غذا انہیں مناسب حیاتین اور معدنیات بھی فراہم نہیں کر پاتی۔ وسطی اور مغربی افریقا میں40 فی صد سے زاید بچے آئیوڈین کی کمی اور 5 سال سے کم عمر کے 70فی صد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کی تقریبا ًنصف آبادی کو حیاتین الف کی کمی کا سامنا ہے، جس میں چاول کو بہ طور غذا کھانے والے غریب افراد کی شرح زیادہ ہے۔40 فی صد سے زاید یورپی باشندے آئیوڈین کی قلت کا شکار ہیں، جس کا اہم سبب ڈیری مصنوعات اور نمک کا کم استعمال ہے، جو کہ آئیوڈین کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔چین میں ہر دس میں سے ایک بچہ لحمیات کی کمی کا شکار ہیں، کیوں کہ ان کی غذا کا اہم جْز ضروری حیاتین اور معدنیات سے محروم چاول اور سویاں ہیں۔ یونیسیف کے مطابق صرف Qinghai صوبے میں ہی چھے ماہ سے ڈھائی سال کے بچوں میں خون کی کمی شرح 70 فی صد سے زاید ہے۔ شمالی امریکا میں غذائی کمی کا سبب غربت نہیں بل کہ پروسیس فوڈ کا زیادہ استعمال ہے۔ پوٹاشیم، کیلشیم اور حیاتین د (وٹامن ڈی) کی کمی نے شمالی امریکا کے بچوں اور بالغ افراد کی صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں۔ لاطینی امریکا کے 10فی صد سے زاید بچے غذا میں لحمیات کی کمی کا سامنا کر ہے ہیں۔ وسطی امریکا کی غریب اور دیہی آبادیاں اس خطرے سے زیادہ متاثر ہیں۔مشرق وسطی میں رہنے والے 20 فی صد سے زاید افراد حیاتین ڈی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کی غذا میں کیلشیم کی مقدار نہایت کم ہے۔ نہایت گرمی کی وجہ سے اس خطے کے رہائشی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ استفادہ حاصل نہیں کرپاتے۔جو وٹامن D کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک اور زراعت کے مطابق دنیا بھر میں کیڑوں کی 19سو سے زاید اقسام پہلے ہی دو بلین افراد کی خوراک کا حصہ ہے۔ گذشتہ سال اس ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں لحمیات کے حصول کے لیے گائے، مرغی اور مچھلی کے متبادل کے طور پر حشرات الارض کو روزمرہ کے کھانے کا حصہ بنانے کی حمایت کی تھی، جب کہ ہالینڈ کیWageningen یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ حشرات الارض نہ صرف عام گوشت کے مقابلے میں زیادہ غذائیت فراہم کرتے ہیں، بل کہ یہ لحمیات کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہیں۔مختلف تہذیبوں کے زیراستعمال رہنے والی غذائیں:٭قدیم یونان میں روٹی کو شراب میں ڈبو کر کھایا جاتا تھا۔٭قدیم رومی ’’گیرم ‘‘ نام کی غذا بہت شوق سے کھاتے تھے، جسے مچھلی کی آنتوں کو طویل عرصے تک سورج کی روشنی میں رکھ کر بنایا جاتا تھا۔