میڈرڈ ۔ ؛مسلمانوں کے یورپ میں اثرات اور شاندار ماضی کی مظہر مسجد قرطبہ کو دو سال کے اندر اندر مکمل طور پر مسیحی چرچ کے حوالے کیے جانے کے فیصلے کو رکوانے کیلیے بین الاقوامی سطح پر ایک آن لائن مہم شروع ہو گئی ہے۔ تاکہ بےشمار ستونوں پر ایستادہ، خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک اس مسجد کی شناخت کو بحال رکھا جائے۔
مسجد قرطبہ جو آج بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم سیاحوں کی غیر معمولی دلچسپی کا مرکز ہے آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم سلاطین کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ آٹھویں صدی سپین پر مسلمانوں کی حکمرانی کا حوالہ ہے۔ مسلم سلاطین نے اس خوبصورت مسجد کی تعمیر کیلیے شہر اندلس کا انتخاب کیا۔ مسجد کی تعمیر مسلمانوں کے اللہ سے لگاو، اور فن تعمیر کے اعلی ذوق کا اظہار تھی۔
بعدازں مسلمانوں کے اس خطے میں زوال اور شکست کے نتیجے میں مسیحی غالب آ گئے تو پندرہویں اور سولہویں صدی میں عین اس مسجد کے صحن میں ایک کیتھولک گرجا بنا دیا گیا۔ اس وقت سے آج تک یہ گرجا اور مسجد دونوں موجود ہیں۔
ہر سال سپین آنے والے سیاحوں میں سے تقریبا چودہ لاکھ سیاح مسجد قرطبہ کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان سیاح اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ان سیاحوں می اگرچہ بڑی تعداد عام عرب اور ایشیائی مسلمانوں کی ہوتی لیکن اہم مسلم شخصیات بھی مسجد قرطبہ کی زیارت کیلیے ذوق و شوق سے آتے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے بھی اندلس کے تاریخی شہر کی سیاحت کی تو مسجد قرطبہ میں حاضری دی، ادائیگی نماز کے علاوہ مسجد قرطبہ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم بھی کہی۔ یہ نظم آج بھی لوگوں کو مسجد قرطبہ میں کشاں کشاں لیے جانے کا ذریعہ ہے۔
اب دوسال بعد کیتھولک چرچ مکمل طور پر اس مسجد کو اپنے کنٹرول میں لے لے گا اور مسجد کا انتظام و انصرام چرچ کے حوالے ہونے کے بعد مسلمان کلی طور پر اس عظیم الشان مسجد سے بے دخل ہو جائیں گے۔ اسی مسیحی کوشش کو روکنے کیلیے آن لائن ایک مہم شروع ہوئی ہے جس میں دنیا بھر سے اب تک تقریبا ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ حصہ لے چکے ہیں اور یہ مطالبہ آگے بڑھا چکے ہیں کہ مسجد کو مکمل طور پر چرچ میں تبدیل نہ کیا جا ئے نیز اس کی موجودہ حالت کو برقرار رہنے دیا جائے۔