شاہ عبدالعزیز آل سعود کے دور حکومت میں مسجد نبوی کے توسیعی کام کی ایک تصویر۔
مدینہ منورہ میں سنہ 1950ء کے عشرے میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی توسیع سے متعلق تصاویر ،نقشوں اور خاکوں کو دنیا کے مشہور نیلام گھر سوتھبی کے ذریعے بولی میں فروخت کیا جارہا ہے۔
سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز آل سعود نے اپنے دور حکومت میں 1951ء میں مسجد نبوی کی ازسر نوتعمیر وتوسیع کا حکم دیا تھا۔تب توسیعی عمارت کا ڈیزائن مصری ماہرتعمیرات فہمی مومن بے نے تیار کیا تھا۔ان کی مسجد نبوی کے توسیعی نقشے کی بنائی ہوئی باون ڈرائینگز اور دوسو سولہ تصاویر کو ان کا خاندان اب نجی طور پر نیلام کررہا ہے۔
سوتھبی میں مسودات اور کتب کے ماہر رچرڈ فطورینی نے العربیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ”بعض ڈرائنگز میں کنکریٹ کے ستونوں اور شہتیروں کی لمبائی، چوڑائی اور ان پر کندہ کاری، سنگ مرمر ،کھڑکیوں اور دروازوں کی تمام تفصیل بیان کی گئی ہے”۔
ان صاحب نے بتایا ہے کہ ”ان نقشوں کو خود آرکٹیکٹ نے بنایا تھا۔ان کو مسجد میں تعمیراتی کام کے دوران عمارتوں کی جگہ پر روزانہ ہی کھولا اور لپیٹا جاتا تھا”۔ مسجد نبوی کا1951ء میں شروع ہونے والا یہ توسیعی منصوبہ 1955ء میں مکمل ہوا تھا۔اس کی تکمیل کے بعد مسجد میں بیک وقت اٹھائیس ہزار نمازی باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے۔
مومن بے کے خاندان نے یہ تمام تصاویر اور نقشے قریباً ساٹھ سال تک اپنے پاس محفوظ رکھے ہیں اور انھوں نے حال ہی میں انھیں نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے سوتھبی سے رابطہ کیا ہے۔ اس خاندان کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک یہ ایسی دستاویز ہیں جنھیں کسی جامعہ یا عجائب گھر میں ہونا چاہیے تا کہ زیادہ سے زیادہ محققین، طلبہ اور عام لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔
مسٹر فطورینی کا کہنا ہے کہ مومن بے اسلامی فن تعمیرات کے ایک نمایاں ماہرتھے اور ان کے بنائے ہوئے ان نقشوں
اور تصاویر کو اسلامی فن تعمیر اور ڈیزائن کی تعلیم وتفہیم کے لیے تدریسی معاون کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان نقشوں اور تصاویر کو اکٹھے ہی نیلامی میں فروخت کیا جائے گا اور انھیں الگ الگ نہیں بیچا جائے گا کیونکہ یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک نقشے کی مدد سے ہی دوسرے کو سمجھا جاسکتا ہے۔
العربیہ نے جب ان سے سوال کیا کہ ان تمام کی مالیت کیا ہوسکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ سوتھبی ان کی قیمت کو عام نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ ایک نجی نیلامی ہے لیکن آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ان تصاویر اور نقشوں کی نایابی اور انفرادیت کے پیش نظر ان کی قیمت بھی اسی حساب سے زیادہ ہوگی۔