٭ ہندوستان کے مسلمانوں کی یہ شکایت بے جا نہیں کہ انہیں آزادی کے بعد سے آج تک ہر سطح پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ دن بدن پسماندہ ہوکر اچھوتوں سے بھی بدتر ہوتے جارہے ہیں آج ان کی اکثریت گندی بستیوں میں آباد ہے وہ بڑی تعداد میں بیروزگار ی کا شکار ہ
یں گذشتہ ۶۷ برسوں کے ترقیاتی منصوبوں میں سب سے کم کام مسلم اکثریتی علاقوں میں انجام دیا گیا ہے علی گڑھ، دیوبند اور ٹونک اس کی واضح مثالیں ہیں جن کو دوسرے علاقوں سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ غیر مسلموں میں جو طبقہ پسماندہ بستیوں میں رہتا ہے وہ زیادہ تر دلتوں کا ہے ل
کن مسلمانوں کے مقابلے میں دلتوں کو کہیں زیادہ مراعات حاصل ہیں کچھ تو اقوام مندرجہ فہرست کے لئے کی جانے والی کوششوں کے ماتحت ان کی آسائش اور ان کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے جاتے رہے ہیں اور کچھ اس لئے کہ ان کا ایک بہت بڑا حصہ مکانات کی سہولتوں کے ضمن میں اجارہ داری رکھتا ہے جبکہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ غیر مختتم غربت اور عدم تحفظ کا احساس ناگزیر طور پر ان میں ایک خاص قسم کی مایوسی اور فکر کو جنم دے رہا ہے اور وہ عزم وارادہ کی اس دولت سے محروم ہوتے جارہے ہیں جو فرد کی سماج کے استحکام اور تعمیر میں دلچسپی کا سبب بنتی ہے کیونکہ مایوسی اور ناامیدی ہمیشہ چڑچڑے پن اور انتشار کو پیدا کرتی ہے۔ مختلف بیماریوں سے اموات کی کثرت، سامانِ پرورش سے محرومی کے باعث بچوں کی صحت کی بربادی یا موت کے واقعات انسانی ذہنوں کو غیر متوازن کرنے کے بہت بڑے محرکات میں سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض گندی بستیاں یا علاقے بے چینی اور بدامنی کا مرکز بنے ہوئے ہیں مگر وہاں کی سرگرمیوں کو کسی مذہبی طبقہ کی مخصوص ذہنیت قرار دینے کے یا ان کو غیرسماجی عناصر کا مرکز تصور کرنے کے بجائے ضروری یہ کہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کی طرف سے ان کے سدھار اور ان کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمانوں کے من حیث القوم مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دیتا، نہ اس کی پرواہ کرتا ہے کہ ان کے شب وروز بدل جائیں اس کے بجائے کوشش یہ ہوتی ہے کہ انہیں قومی دھارے سے دور رکھاجائے مسلمانوں کے بارے میں یہ مفروضہ قائم کرلیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسے مخصوص سیاسی عقیدے کے حامل ہیںجو ہماری اجتماعی زندگی اور قومی نقطہ نظر سے مختلف ہے وہ اپنے سیاسی طرز ِ عمل میں فرقہ پرست ہوتے ہیںاور یہ کہ وہ نہایت جوش وخروش کے ساتھ سیکولر نظریہ کے بجائے فرقہ پرستی کے نعروں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور یہ کہ ایک گذرے ہوئے ماضی کے چند نظریات ہیںجو انہوں نے چینی کے کھلونوں کی طرح اپنے سامنے سجا رکھے ہیں۔حالانکہ جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ایک بھی الزام درست ثابت نہیںکیا جاسکتا جہاں تک مسلمانوں کی فرقہ پرستی کا سوال ہے تو اس کی تردید کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ۶۵ سال سے کسی بھی الیکشن میں مسلمانوں نے اجتماعی طور پر کسی فرقہ پرست جماعت کو ووٹ نہیں دیا بلکہ اکثرانہوں نے سیکولر پارٹیوں کی حمایت میں ہی ووٹ دیا ہے اور ۱۹۶۷ء ۱۹۷۷ء اور ۱۹۹۶ء کی طرح جب ان پر کانگریس مخالفت کا جذبہ طاری ہوا تو انہوں نے کانگریس کے مقابلے میںدوسری قومی جماعتوں کو اپنی حمایت سے نوازا اور کبھی بھی وہ معاشرہ کے دوسرے طبقوں یا قومیتوں سے زیادہ کانگریس مخالف ثابت نہیںہوئے۔ یہ طرزِ عمل انہوں نے اس کے باوجود اختیار کیا کہ ان کی شکایات کبھی رفع نہیں ہوئیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشترکہ قومی دھارے سے باہر مسلمان ہی نہیں پوری قوم ہے پھر بھی اس کی اصلاح کے بجائے صرف مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے حالانکہ ان کے ساتھ ابھی تک اچھا سلوک نہیں کیا گیا خواہ کسی غیر سیکولر جماعتوں کا ہو یا سیکولر حکومت کا۔(یو این این)